Tuesday, January 1, 2008
Is there a safe passage? - Dawn
Monday, December 31, 2007
اسٹیبلشمنٹ کا دیو
ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ تین پولیس والے ڈینگیں مار رہے تھے۔ امریکی پولیس والے نے کہا کہ امریکہ میں وہ ایک جرم کو چوبیس گھنٹوں میں حل کر لیتے ہیں اور مجرم کو پکڑ لیتے ہیں۔ دوسرا برطانوی پولیس والا بولا کہ ہم برطانیہ میں بارہ گھنٹے کے اندر مجرم کو پکڑ لیتے ہیں۔ تیسرا پاکستانی پولیس والا تھا وہ دونوں ساتھیوں کی بات سن کر ہنسا اور کہنے لگا کہ ہم تو پاکستان میں جرم ہونے سے چوبیس گھنٹے پہلے ہی پتہ کر لیتے ہیں۔
ثابت یہ ہوا کہ پاکستانی پولیس سب سے زیادہ قبل ہے۔ اب تو معلوم ہوا ہے کہ وزارتِ داخلہ بھی ذہین لوگوں سے بھری ہوئی ہے۔ اب دیکھیں کہ بریگیڈئر چیمہ نے بارہ گھنٹےہ کے اندر بینظیر بھٹو کو موت کی وجہ معلوم کر لی۔ انہوں نے اس جوڈیشل کمیشن کے فیصلے کا بھی انتظار نہیں کیا جس کو بینظیر بھٹو کی موت کی تحقیقات کا حکم دیا گیا ہے اور پھر انتظار کرنے کی کیا خاص ضرورت ہے۔ حکومت نے قتل کے بارہ گھنٹے کے اندر وہ تمام شواہد مٹا دیئے جن سے شاید کچھ معلوم ہوتا کہ گولی کس نے چلائی کہاں سے چلی اور کیا ہوا۔
بینظیر بھٹو کا قتل اس بات کا غماز ہے کہ حکومت کس حد تک جا سکتی ہے۔ دہشت گردی اور القاعدہ وہ تاش کے پتے ہیں جس سے فوج اپنا زور اور اثر رسوخ بڑھا رہی ہے۔
اس ملک کی اسٹیبلشمنٹ کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ اس نے ان لیڈرز کو جو کہ بات کرنے کو تیار ہوتے ہیں ان کو مار دیتی ہے۔ بینظیر بھٹو سے پہلے نواب اکبر بگٹی کا قتل بھی اس بات کا عکاس ہے کہ یہ اسٹیبلشمنٹ گفت و شنید میں یقین نہیں رکھتی۔
اب ہم اس سے کیا سمجھیں کہ بینظیر بھٹو کا قصور یہ تھا کہ وہ گفتگو کرنے میں یقین رکھتی تھیں۔ سچ تو یہ ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کو اب اس کے ساتھ مل کر اندر سے بدلا نہیں جا سکتا۔ یہ اس دیو کی طرح ہے جو زندگیوں اور روحوں کو ہڑپ کر لیتی ہے لیکن اس کی صحت پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔
دہشت گردی کے خلاف جنگ یا ’وار ان ٹیرر‘ شروع ہونے کے بعد سے پاکستان میں جو مفاد پرست عناصر ہیں ان سے یہ سمجھ رکھا ہے کہ دہشت گردی سے جنگ کے بہانے اور ملک کے ایٹمی ہتھیار کی وجہ سے دنیا کی سب طاقتیں ہمیشہ اُن کا ساتھ دیں گی۔
انیس سو سینتالیس کے بعد سے اس مفاد پرست طبقے نے بیرونی طاقتوں کیلے کام کیا ہے جس کے بدلے میں انہیں پیسہ، دولت اور طاقت ملا ہے۔ مفاد پرست ٹولا ملک کی خواص پر مبنی ہے جس میں بڑے سیاستدان، جرنیل اور سرمایہ دار آ جاتے ہیں اور تو اور بڑے بڑے مولوی بھی اس کا حصہ ہیں۔
یہ مفاد پرست سیاست کو پنپنے نہیں دینا اور جہاں کوئی ایسا لیڈر نظر آتا ہے جس کی رسائی عوام تک ہو تو اس مار دیا جاتا ہے۔ مسائل دو ہیں۔ ایک تو یہ کہ ایسی پالسیوں سے پاکستان کمزور سے کمزور ہوتا جا رہا ہے۔ آخر یوگوسلوایہ میں جو ہوا اور جگہوں پر بھی ہو سکتا ہے۔ دوسرا کہ اس ملک کے ٹکڑے ہونے کا بیرونی طاقتوں کی صحت پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ آخر کو پاکستان محض ایک طفیلی یا ’ کلائنٹ‘ ریاست ہے جس سے کسی قسم کا بھی سلوک ہوسکتا ہے۔
مسٹر بھٹو زرداری
یہ ایک بلکل نئی کوریو گرافی ہے۔ سندھی اجرک اور ٹوپیوں میں بینظیر کی قبر پر رات کے اندھیرے میں پھولوں کی چادر چڑھاتی ہوئی پاک فوج اور دن دہاڑے پی پی پی کے نئے چیئر پرسن آصف علی زرداری۔
اے میرے وطن کے سجیلے جنریلو! تم قتل کرتے ہو کہ کرامات کرتے ہو! دیکھتی آنکھوں اور سنتے کانوں ! ماتم کدہ پاکستان میں لاشوں کے نیلام گھر کے نئے طارق عزیز اینڈ کمپنی کا سلام پہنچے۔
اس کی بلٹ پروف گاڑی کی ڈرائیونگ سیٹ پر خالد شہنشاہ، اس کے ساتھ والی سیٹ پر سیکیورٹی انچارج میجر (ریٹائرڈ) امتیاز، پچھلی سیٹ پر مخدوم امین فہیم، ناہید خان اور بینظیر بھٹو جو اب گاڑی کی سیٹ پر خون سے بھرا تالاب، چار قلوں والی ہری چادر، ایک جوتے، اور پاکستان کے کروڑ ہا ورثاء کے باوجود بغیر پوسٹ مارٹم کروائی ہوئی ایک مقتولہ سندھی عورت وزیر اعظم جو سی ون تھرٹی میں چکلالہ ائیرپورٹ سےگڑھی خدا بخش میں دفنا دی گئیں۔
سندھ کی ناخوش وادی کے الم نصیبو جگر فگارو! پنجاب کے وہ پروانے بھی یاد رکھنا جو سندھ کی اس بیٹی پر مر مٹے۔ جنہوں نے خود کش بمار کو نہتے ہاتھوں سے پکڑنے کی کوشش کی۔ بہرے کانوں پر جیالوں کے نعرے ان سنے رہے ’ملک کی مجبوری ہے صنم بھٹو ضروری ہے‘ (اور صنم بھٹو کی اپنی مجبوری تھی)۔
اگست انیس سو نوے میں پرائیم منسٹر ہاؤس سے معزول ہوتی وزیر اعظم کے سامان کے ٹرکوں میں آصف علی زرداری کے گھوڑے اور بلاول کا جھولا بھی ساتھ آئے تھے۔ اب آصف کا تو پتہ نہیں لیکن بلاول بڑا ہوگیا ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی اور انڈین نیشنل کانگرس میں مماثلت ڈونڈھنا عبث ہے کیونکہ نہرو کی پارٹی فیروز گاندھی کو نہ جہیز میں ملی تھی نہ وصیت میں!
کل نیویارک میں پی پی پی کے ایک پرانے کارکن کہہ رہے تھے، ’مگرمچھ کے منہ میں اس وقت بازو نہیں دیا جاتا جب اس کی آنکھ میں انسو ہوں۔‘
سولہ دسمبر
جو گدھ نے آنکھیں چبائيں
نین وہ نذرل کے تھے
ٹیگور کی کوتاؤں جیسی لڑکیاں
جنکے سینے چاک تم نے یوں کیے سنگینوں سے
قرآن نیزے پر اٹھے
چھوٹی چھوٹی بچیاں الہام جیسی بچیاں
مائيں بنیں
غازیوں کی داشتائيں نہ بنیں
تم بضد ہو
بیس لاکھ ہرگز نہیں تھے
انڈین سازش تھی وہ
ہم نے مارے تھے فقط دو ایک لاکھ
سب کے سب غدار تھے عیار تھے مکار تھے
گندے انڈے تھے ہماری ٹوکرئ پاک میں
بہہ گئے خاشاک میں
برہمپترا، میگھنا، کرنافلی
خون سے سب ندیاں ہم نے بھری
ایمان کی طاقت سی تھیں
ہندؤں جیسے وہ تھے
کالے کلوٹے ڈیڑھ فُٹے سالے
بنگالی بہن۔۔۔۔۔
انکی نہ تھی ہم کو ضروت اسقدر
اللہ اکبر الشمس اور البدر
اللہ اکبر
ہم کو زمیں چاہیے تھی بس
شیر سندر بن کے وہ کہتے تھے خود کو
ہوں۔۔۔۔!
شیر تھا جنرل نیازی
اپنا جو ٹکا خان تھا
بس ایک ہی مسلمان تھا
سامنے تھی رانگا ماٹی اور مکتی باہنی
مجیب، تاج الدین احمد، قادر صدیقی ٹائيگر
اور پروفیسر مظفر
ایک سے بس ایک وہ غدار تھا
اپنا بھی ذوالفقار تھا
’خدا کا شکر پاکستان دیکھو بچ گیا‘
گندی انگلی کاٹ ڈالی ہم نے اپنے ہاتھ سے
اور اسی کے ساتھ سے
معصوم نبیوں جیسا جسکا نام
آغا جنرل محمد یحی خان تھا
تو نشان عزم عالیشان تھا
یہ بھی کیا انسان تھا
اسکو بس رائل سلیوٹ
سولہ دسمبر پھر سجائی ہے اسی دیوار پر
ہم نے کیلینڈر پر
ایمرجنسی اٹھانے کیلیے
کیا ہوا نیازی نہیں غازی نہیں
ہم میں ابھی
گدھ بیٹھی ہے منڈیروں پر وہی
کس کی آنکھیں یہ چباتی ہے ابھی
’اے نوائے گلفروش اے نوائے گلفروش‘
کس کے اب پستان کاٹیں گے ہمارے سرفروش
تو بتا! سولہ دسمبر تو بتا!
پھر فتح کا جام یہ روشن کریں گے
کس کے خون و خاک کا
نام پھر روشن کریں گے
سرزمین پاک کا
Friday, December 28, 2007
ایک اور بھٹو کا قتل
آج پنڈی کی ایک سڑک پر ایک اور بھٹو کو مار دیا گیا۔ پاکستان کی تاریخ جہاں مختلف جرنیلوں کے مارشل ادوار میں تقسیم ہے تو وہیں بھٹو خاندان کے افراد کے خون سے بھی رنگی ہوئی ہے۔
پچھلے تیس برسوں کے دو مارشل لا ، چار جمہوری دور، دو صدارتی ریفرنڈم اور کئی بد نامِ زمانہ آئینی تبدیلیوں کے ساتھ ساتھ ملک کی کم سے کم دو نسلیں ایک نہیں بہت سی بے نظیروں کے ساتھ جوان ہوئی ہیں۔
جنرل ضیا کی اچانک ہلاکت کے بعد یہ امید اور بھی زور پکڑ گئی اور اب بے نظیر سن اٹھاسی کی پِن اپ رہنما بن کر ابھریں اور کچھ ہی دنوں میں وہ آصف علی زرداری کے ہمراہ ایک حکمران نظر آئیں۔ سندھی اجرک میں ہاتھ ہلاتی بے نظیر کی جگہ اب ایک بہت محتاط اور اپنے امیج سے بہت با خبر بے نظیر نے لے لی۔
اب وہ وزیراعظم بے نظیر تھیں۔
بھٹو خاندان اور پاکستانی ایسٹیبلشمنٹ کے بیچ لو ہیٹ کے اس تاریخی ریلیشن شپ نے جب ایک اور موڑ لیا تو ایک طرف بے نظیر اپنی ہی پارٹی کے صدر کے ہاتھوں پھر سے اقتدار سے باہر ہوتی ہوئی نظر آئیں تو دوسری طرف کراچی کے مِڈ ایسٹ ہوسپٹل کے باہر آدھی رات کو ننگے پاؤں زارو قطار روتی ہوئی بے نظیر کو بھی تو سبھی نے دیکھا تھا جو کبھی تو ایک بے بس وزیراعظم نظر آتی تھی تو کبھی غم سے نڈھال بہن۔
مرتضٰی بھٹو کی ہلاکت اور خاندان کی تقسیم کے بعد بے نظیر بہت عرصے تک بیک فٹ پر رہنے کے بعد وہ پھر نواز شریف کے ہمراہ لندن میں چارٹر آف ڈیموکریسی پر دستخط کرتی نظر آئیں اور اس کے بعد سے وہ بس میڈیا پر چھا گئیں۔
جنرل مشرف کے ساتھ پہلے مفاہمت اور پھر انہیں چیلنج کرنے اور ملک کی اہم جماعتوں کو الیکشن کے بائیکاٹ سے روکنے کے بعد بے نظیر اس وقت کے پاکستان کی سیاست میں کلیدی رول ادا کر رہیں تھیں اور الیکشن کے بعد کی صورتحال میں بھی توقع تھی کہ ان کا سیاسی کردار اہم رہے گا۔
ایک اور بھٹو کا قتل
آج پنڈی کی ایک سڑک پر ایک اور بھٹو کو مار دیا گیا۔ پاکستان کی تاریخ جہاں مختلف جرنیلوں کے مارشل ادوار میں تقسیم ہے تو وہیں بھٹو خاندان کے افراد کے خون سے بھی رنگی ہوئی ہے۔
پچھلے تیس برسوں کے دو مارشل لا ، چار جمہوری دور، دو صدارتی ریفرنڈم اور کئی بد نامِ زمانہ آئینی تبدیلیوں کے ساتھ ساتھ ملک کی کم سے کم دو نسلیں ایک نہیں بہت سی بے نظیروں کے ساتھ جوان ہوئی ہیں۔
جنرل ضیا کی اچانک ہلاکت کے بعد یہ امید اور بھی زور پکڑ گئی اور اب بے نظیر سن اٹھاسی کی پِن اپ رہنما بن کر ابھریں اور کچھ ہی دنوں میں وہ آصف علی زرداری کے ہمراہ ایک حکمران نظر آئیں۔ سندھی اجرک میں ہاتھ ہلاتی بے نظیر کی جگہ اب ایک بہت محتاط اور اپنے امیج سے بہت با خبر بے نظیر نے لے لی۔
اب وہ وزیراعظم بے نظیر تھیں۔
بھٹو خاندان اور پاکستانی ایسٹیبلشمنٹ کے بیچ لو ہیٹ کے اس تاریخی ریلیشن شپ نے جب ایک اور موڑ لیا تو ایک طرف بے نظیر اپنی ہی پارٹی کے صدر کے ہاتھوں پھر سے اقتدار سے باہر ہوتی ہوئی نظر آئیں تو دوسری طرف کراچی کے مِڈ ایسٹ ہوسپٹل کے باہر آدھی رات کو ننگے پاؤں زارو قطار روتی ہوئی بے نظیر کو بھی تو سبھی نے دیکھا تھا جو کبھی تو ایک بے بس وزیراعظم نظر آتی تھی تو کبھی غم سے نڈھال بہن۔
مرتضٰی بھٹو کی ہلاکت اور خاندان کی تقسیم کے بعد بے نظیر بہت عرصے تک بیک فٹ پر رہنے کے بعد وہ پھر نواز شریف کے ہمراہ لندن میں چارٹر آف ڈیموکریسی پر دستخط کرتی نظر آئیں اور اس کے بعد سے وہ بس میڈیا پر چھا گئیں۔
جنرل مشرف کے ساتھ پہلے مفاہمت اور پھر انہیں چیلنج کرنے اور ملک کی اہم جماعتوں کو الیکشن کے بائیکاٹ سے روکنے کے بعد بے نظیر اس وقت کے پاکستان کی سیاست میں کلیدی رول ادا کر رہیں تھیں اور الیکشن کے بعد کی صورتحال میں بھی توقع تھی کہ ان کا سیاسی کردار اہم رہے گا۔
بینظیر بھٹو:منفرد سیاسی شخصیت کی مالک
پاکستان پیپلز پارٹی کی چئرپرسن بینظیر بھٹو اپنے خاندان کی تیسری فرد ہیں جن کی زندگی سیاست کی بھینٹ چڑھی ہے۔
وہ اور ان کے بھائی میر مرتضی بھٹو اپنے والد ذوالفقار علی بھٹو کے نقش قدم پر چلتے ہوئے سیاست میں آئے تھے اور یہی ان سب کی موت کی وجہ بنی۔ ان کے والد کو فوجی آمر جنرل ضیاء الحق نے 1979ء میں پھانسی پر چڑھایا تھا، اسکے بعد ان کے بھائی مرتضی بھٹو کو 1996ء میں ان ہی کے دور حکومت میں گولیاں مار کر ہلاک کردیا گیا اور جمعرات کو بے نظیر بھٹو کو لیاقت باغ راولپنڈی میں قتل کردیا گیا۔
اس سے قبل ان کے چھوٹے بھائی شاہ نواز بھٹو بھی 1985ء میں جنرل ضیاء الحق کے دور میں فرانس کے دارالحکومت پیرس میں اپنی قیام گاہ پر مردہ پائے گئے تھے۔ بھٹو خاندان کا الزام تھا کہ انہیں زہر دیکر قتل کیا گیا۔
بھارت کے نہرو-گاندھی خاندان کی طرح، پاکستان کا بھٹو خاندان دنیا کے طاقتور ترین سیاسی خاندانوں میں سے ایک ہے۔ بے نظیر بھٹو کے والد ذوالفقار علی بھٹو 70 کے عشرے میں ملک کے وزیر اعظم تھے۔ ان کی حکومت ملک کے قیام کے بعد ان چند حکومتوں میں سے ایک تھی جسے فوج نہیں چلارہی تھی۔
بینظیر بھٹو دو بار پاکستان کی وزیر اعظم بنیں۔ پہلے 1988ء میں اور پھر 1993ء میں لیکن دونوں مرتبہ ان کی حکومت کو دو ڈھائی سال سے زیادہ نہیں چلنے دیا گیا اور کرپشن کے الزام کے تحت برطرف کردیا گیا۔
تاہم 1988ء میں پہلی بار وزیر اعظم بننے کے بعد ان کا شمار دنیا کی چند مقبول ترین خواتین رہنماؤں میں ہونے لگا تھا اور برسر اقتدار آنے کے بعد انہوں نے خود کو مردانہ حاکمیت کی حامل پاکستانی اسٹیبلشمینٹ کے مقابلے میں ایک کامیاب سیاستدان کے طور پر پیش کیا تھا۔
لیکن دوسری بار اقتدار سے نکالے جانے کے بعد بینظیر بھٹو کے اقتدار کو ان کے مخالفین کرپشن اور بے ضابتگیوں کی حکمرانی سے تعبیر کرتے تھے۔
بینظیر بھٹو نے 1953ء میں صوبہ سندھ میں جنم لیا اور اسکے بعد ہارورڈ اور آکسفورڈ یونیورسٹیوں میں تعلیم حاصل کی۔ ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ سیاستدان نہیں بننا چاہتی تھی لیکن اپنے والد کی موت کے سات سالوں بعد جب انہوں نے پاکستانی سیاست میں قدم رکھا تو انہیں اپنے والد کی عوامی مقبولیت کا فائدہ پہنچا۔
جس ثابت قدمی اور ہمت کےلیے نظیر بھٹو شہرت رکھتی تھیں وہ سب سے پہلے اس وقت دیکھی گئی جب ان کے والد کو جنرل ضیاء الحق نے اقتدار پر قبضہ کرکے 77ء میں جیل میں ڈال دیا تھا اور ان پر قتل کا مقدمہ بنایا تھا جس کے دو سالوں بعد انہیں سزائے موت دیدی گئی۔
جنرل ضیاء الحق کی حکومت نے بے نظیر کو ان کے والد کی موت سے پہلے قید کردیا تھا اور انہوں نے جیل میں اپنا زیادہ تر وقت قید تنہائی میں گزارا۔ بے نظیر بھٹو نے قید کے حالات کو سخت ترین قرار دیا تھا۔
علاج کی غرض سے جیل سے رہائی کے بعد انہوں نے لندن میں پیپلز پارٹی کا دفتر قائم کیا اور جنرل ضیاء الحق کے خلاف مہم شروع کی تھی۔پھر وہ 1986ء میں پاکستان واپس گئی تھیں جہاں ان کا شاندار استقبال کیا گیا۔
1988ء میں فوجی طیارے کے حادثے میں جنرل ضیاء الحق کی موت کے بعد وہ کسی اسلامی ملک میں جمہوری طور پر منتخب ہونے والی پہلی وزیر اعظم تھیں۔
بے نظیر بھٹو کے دونوں ادوار حکومت میں ان کے شوہر آصف علی زرداری کی حیثیت متنازعہ رہی اور ان پر بعد میں آنے والی حکومتوں نے مالی بدعنوانیوں میں ملوث ہونے کا الزام لگایا۔ بعض لوگوں نے یہ بھی الزام دیا کہ ان کی مبینہ مالی بدعنوانیاں بینظیر بھٹو کے اقتدار کے خاتمے کی وجہ بنی۔
بینظیر بھٹو کو کرپشن کے کم سے کم پانچ مقدمات کا سامنا کرنا پڑا لیکن کسی بھی مقدمے میں انہیں سزا نہیں ہوئی اور اس سال اکتوبر میں انہیں قومی مصالحتی آرڈیننس کے تحت ان الزامات سے بری کردیا گیا۔
بینظیر بھٹو نے اپنے اور اپنے شوہر کے اوپر لگنے والے کرپشن کے الزامات کی ہمیشہ تردید کی اور انہیں ان کی کردارکشی کی سیاسی کوششیں قرار دیا۔
بینظیر بھٹو 1999ء میں پاکستان سے باہر چلی گئی تھیں اور آٹھ سال خود ساختہ جلاوطنی میں گزارے جس کے دوران وہ دبئی میں آٹھ سالوں تک اپنے تین بچوں کے ساتھ رہیں۔
خود ساختہ جلاوطنی کے دوران انہوں نے اکثر مغربی ممالک کے دارالحکومتوں کے دورے کیے اور وہاں کے مختلف اداروں میں لیکچرز دیتی رہیں۔
بینظیر بھٹو خودساختہ جلاوطنی ختم کرکے اٹھارہ اکتوبر کو وطن واپس لوٹی تھیں۔ ان کی آمد سے قبل ملک کے فوجی صدر پرویز مشرف نے متنازعہ قومی مصالحتی آرڈیننس جاری کرکے ان کے خلاف قائم کرپشن کے مقدمات ختم کردئے تھے۔
مبصرین کے بقول پرویز مشرف کی فوجی حکومت انہیں انتہاپسندوں کے خلاف جنگ میں اپنا فطری اتحادی سمجھتی تھی۔
اٹھارہ اکتوبر کو بینظیر بھٹو جب پاکستان واپس آئیں تو کراچی میں ان کی آمد پر ایک بار پھر انسانوں کے سمندر نے ان کا استقبال کیا۔ لیکن ان کے جلوس پر خودکش حملہ ہوا جس میں وہ محفوظ رہیں۔ تاہم ڈیڑھ سو کے قریب لوگ مارے گئے اور پانچ سو سے زائد شدید زخمی ہوئے تھے۔
اس واقعے کے بعد انہوں نے پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ انہیں وطن واپس آنے سے پہلے اس خطرے کا علم تھا کہ ان پر حملہ ہوسکتا ہے لیکن وہ جمہوریت اور ملک کے عوام کی خاطر وطن واپس آئیں۔