ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ تین پولیس والے ڈینگیں مار رہے تھے۔ امریکی پولیس والے نے کہا کہ امریکہ میں وہ ایک جرم کو چوبیس گھنٹوں میں حل کر لیتے ہیں اور مجرم کو پکڑ لیتے ہیں۔ دوسرا برطانوی پولیس والا بولا کہ ہم برطانیہ میں بارہ گھنٹے کے اندر مجرم کو پکڑ لیتے ہیں۔ تیسرا پاکستانی پولیس والا تھا وہ دونوں ساتھیوں کی بات سن کر ہنسا اور کہنے لگا کہ ہم تو پاکستان میں جرم ہونے سے چوبیس گھنٹے پہلے ہی پتہ کر لیتے ہیں۔
ثابت یہ ہوا کہ پاکستانی پولیس سب سے زیادہ قبل ہے۔ اب تو معلوم ہوا ہے کہ وزارتِ داخلہ بھی ذہین لوگوں سے بھری ہوئی ہے۔ اب دیکھیں کہ بریگیڈئر چیمہ نے بارہ گھنٹےہ کے اندر بینظیر بھٹو کو موت کی وجہ معلوم کر لی۔ انہوں نے اس جوڈیشل کمیشن کے فیصلے کا بھی انتظار نہیں کیا جس کو بینظیر بھٹو کی موت کی تحقیقات کا حکم دیا گیا ہے اور پھر انتظار کرنے کی کیا خاص ضرورت ہے۔ حکومت نے قتل کے بارہ گھنٹے کے اندر وہ تمام شواہد مٹا دیئے جن سے شاید کچھ معلوم ہوتا کہ گولی کس نے چلائی کہاں سے چلی اور کیا ہوا۔
بینظیر بھٹو کا قتل اس بات کا غماز ہے کہ حکومت کس حد تک جا سکتی ہے۔ دہشت گردی اور القاعدہ وہ تاش کے پتے ہیں جس سے فوج اپنا زور اور اثر رسوخ بڑھا رہی ہے۔
اس ملک کی اسٹیبلشمنٹ کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ اس نے ان لیڈرز کو جو کہ بات کرنے کو تیار ہوتے ہیں ان کو مار دیتی ہے۔ بینظیر بھٹو سے پہلے نواب اکبر بگٹی کا قتل بھی اس بات کا عکاس ہے کہ یہ اسٹیبلشمنٹ گفت و شنید میں یقین نہیں رکھتی۔
اب ہم اس سے کیا سمجھیں کہ بینظیر بھٹو کا قصور یہ تھا کہ وہ گفتگو کرنے میں یقین رکھتی تھیں۔ سچ تو یہ ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کو اب اس کے ساتھ مل کر اندر سے بدلا نہیں جا سکتا۔ یہ اس دیو کی طرح ہے جو زندگیوں اور روحوں کو ہڑپ کر لیتی ہے لیکن اس کی صحت پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔
دہشت گردی کے خلاف جنگ یا ’وار ان ٹیرر‘ شروع ہونے کے بعد سے پاکستان میں جو مفاد پرست عناصر ہیں ان سے یہ سمجھ رکھا ہے کہ دہشت گردی سے جنگ کے بہانے اور ملک کے ایٹمی ہتھیار کی وجہ سے دنیا کی سب طاقتیں ہمیشہ اُن کا ساتھ دیں گی۔
انیس سو سینتالیس کے بعد سے اس مفاد پرست طبقے نے بیرونی طاقتوں کیلے کام کیا ہے جس کے بدلے میں انہیں پیسہ، دولت اور طاقت ملا ہے۔ مفاد پرست ٹولا ملک کی خواص پر مبنی ہے جس میں بڑے سیاستدان، جرنیل اور سرمایہ دار آ جاتے ہیں اور تو اور بڑے بڑے مولوی بھی اس کا حصہ ہیں۔
یہ مفاد پرست سیاست کو پنپنے نہیں دینا اور جہاں کوئی ایسا لیڈر نظر آتا ہے جس کی رسائی عوام تک ہو تو اس مار دیا جاتا ہے۔ مسائل دو ہیں۔ ایک تو یہ کہ ایسی پالسیوں سے پاکستان کمزور سے کمزور ہوتا جا رہا ہے۔ آخر یوگوسلوایہ میں جو ہوا اور جگہوں پر بھی ہو سکتا ہے۔ دوسرا کہ اس ملک کے ٹکڑے ہونے کا بیرونی طاقتوں کی صحت پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ آخر کو پاکستان محض ایک طفیلی یا ’ کلائنٹ‘ ریاست ہے جس سے کسی قسم کا بھی سلوک ہوسکتا ہے۔
No comments:
Post a Comment