جو گدھ نے آنکھیں چبائيں
نین وہ نذرل کے تھے
ٹیگور کی کوتاؤں جیسی لڑکیاں
جنکے سینے چاک تم نے یوں کیے سنگینوں سے
قرآن نیزے پر اٹھے
چھوٹی چھوٹی بچیاں الہام جیسی بچیاں
مائيں بنیں
غازیوں کی داشتائيں نہ بنیں
تم بضد ہو
بیس لاکھ ہرگز نہیں تھے
انڈین سازش تھی وہ
ہم نے مارے تھے فقط دو ایک لاکھ
سب کے سب غدار تھے عیار تھے مکار تھے
گندے انڈے تھے ہماری ٹوکرئ پاک میں
بہہ گئے خاشاک میں
برہمپترا، میگھنا، کرنافلی
خون سے سب ندیاں ہم نے بھری
ایمان کی طاقت سی تھیں
ہندؤں جیسے وہ تھے
کالے کلوٹے ڈیڑھ فُٹے سالے
بنگالی بہن۔۔۔۔۔
انکی نہ تھی ہم کو ضروت اسقدر
اللہ اکبر الشمس اور البدر
اللہ اکبر
ہم کو زمیں چاہیے تھی بس
شیر سندر بن کے وہ کہتے تھے خود کو
ہوں۔۔۔۔!
شیر تھا جنرل نیازی
اپنا جو ٹکا خان تھا
بس ایک ہی مسلمان تھا
سامنے تھی رانگا ماٹی اور مکتی باہنی
مجیب، تاج الدین احمد، قادر صدیقی ٹائيگر
اور پروفیسر مظفر
ایک سے بس ایک وہ غدار تھا
اپنا بھی ذوالفقار تھا
’خدا کا شکر پاکستان دیکھو بچ گیا‘
گندی انگلی کاٹ ڈالی ہم نے اپنے ہاتھ سے
اور اسی کے ساتھ سے
معصوم نبیوں جیسا جسکا نام
آغا جنرل محمد یحی خان تھا
تو نشان عزم عالیشان تھا
یہ بھی کیا انسان تھا
اسکو بس رائل سلیوٹ
سولہ دسمبر پھر سجائی ہے اسی دیوار پر
ہم نے کیلینڈر پر
ایمرجنسی اٹھانے کیلیے
کیا ہوا نیازی نہیں غازی نہیں
ہم میں ابھی
گدھ بیٹھی ہے منڈیروں پر وہی
کس کی آنکھیں یہ چباتی ہے ابھی
’اے نوائے گلفروش اے نوائے گلفروش‘
کس کے اب پستان کاٹیں گے ہمارے سرفروش
تو بتا! سولہ دسمبر تو بتا!
پھر فتح کا جام یہ روشن کریں گے
کس کے خون و خاک کا
نام پھر روشن کریں گے
سرزمین پاک کا
No comments:
Post a Comment