پاکستان پیپلز پارٹی کی چئرپرسن بینظیر بھٹو اپنے خاندان کی تیسری فرد ہیں جن کی زندگی سیاست کی بھینٹ چڑھی ہے۔
وہ اور ان کے بھائی میر مرتضی بھٹو اپنے والد ذوالفقار علی بھٹو کے نقش قدم پر چلتے ہوئے سیاست میں آئے تھے اور یہی ان سب کی موت کی وجہ بنی۔ ان کے والد کو فوجی آمر جنرل ضیاء الحق نے 1979ء میں پھانسی پر چڑھایا تھا، اسکے بعد ان کے بھائی مرتضی بھٹو کو 1996ء میں ان ہی کے دور حکومت میں گولیاں مار کر ہلاک کردیا گیا اور جمعرات کو بے نظیر بھٹو کو لیاقت باغ راولپنڈی میں قتل کردیا گیا۔
اس سے قبل ان کے چھوٹے بھائی شاہ نواز بھٹو بھی 1985ء میں جنرل ضیاء الحق کے دور میں فرانس کے دارالحکومت پیرس میں اپنی قیام گاہ پر مردہ پائے گئے تھے۔ بھٹو خاندان کا الزام تھا کہ انہیں زہر دیکر قتل کیا گیا۔
بھارت کے نہرو-گاندھی خاندان کی طرح، پاکستان کا بھٹو خاندان دنیا کے طاقتور ترین سیاسی خاندانوں میں سے ایک ہے۔ بے نظیر بھٹو کے والد ذوالفقار علی بھٹو 70 کے عشرے میں ملک کے وزیر اعظم تھے۔ ان کی حکومت ملک کے قیام کے بعد ان چند حکومتوں میں سے ایک تھی جسے فوج نہیں چلارہی تھی۔
بینظیر بھٹو دو بار پاکستان کی وزیر اعظم بنیں۔ پہلے 1988ء میں اور پھر 1993ء میں لیکن دونوں مرتبہ ان کی حکومت کو دو ڈھائی سال سے زیادہ نہیں چلنے دیا گیا اور کرپشن کے الزام کے تحت برطرف کردیا گیا۔
تاہم 1988ء میں پہلی بار وزیر اعظم بننے کے بعد ان کا شمار دنیا کی چند مقبول ترین خواتین رہنماؤں میں ہونے لگا تھا اور برسر اقتدار آنے کے بعد انہوں نے خود کو مردانہ حاکمیت کی حامل پاکستانی اسٹیبلشمینٹ کے مقابلے میں ایک کامیاب سیاستدان کے طور پر پیش کیا تھا۔
لیکن دوسری بار اقتدار سے نکالے جانے کے بعد بینظیر بھٹو کے اقتدار کو ان کے مخالفین کرپشن اور بے ضابتگیوں کی حکمرانی سے تعبیر کرتے تھے۔
بینظیر بھٹو نے 1953ء میں صوبہ سندھ میں جنم لیا اور اسکے بعد ہارورڈ اور آکسفورڈ یونیورسٹیوں میں تعلیم حاصل کی۔ ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ سیاستدان نہیں بننا چاہتی تھی لیکن اپنے والد کی موت کے سات سالوں بعد جب انہوں نے پاکستانی سیاست میں قدم رکھا تو انہیں اپنے والد کی عوامی مقبولیت کا فائدہ پہنچا۔
جس ثابت قدمی اور ہمت کےلیے نظیر بھٹو شہرت رکھتی تھیں وہ سب سے پہلے اس وقت دیکھی گئی جب ان کے والد کو جنرل ضیاء الحق نے اقتدار پر قبضہ کرکے 77ء میں جیل میں ڈال دیا تھا اور ان پر قتل کا مقدمہ بنایا تھا جس کے دو سالوں بعد انہیں سزائے موت دیدی گئی۔
جنرل ضیاء الحق کی حکومت نے بے نظیر کو ان کے والد کی موت سے پہلے قید کردیا تھا اور انہوں نے جیل میں اپنا زیادہ تر وقت قید تنہائی میں گزارا۔ بے نظیر بھٹو نے قید کے حالات کو سخت ترین قرار دیا تھا۔
علاج کی غرض سے جیل سے رہائی کے بعد انہوں نے لندن میں پیپلز پارٹی کا دفتر قائم کیا اور جنرل ضیاء الحق کے خلاف مہم شروع کی تھی۔پھر وہ 1986ء میں پاکستان واپس گئی تھیں جہاں ان کا شاندار استقبال کیا گیا۔
1988ء میں فوجی طیارے کے حادثے میں جنرل ضیاء الحق کی موت کے بعد وہ کسی اسلامی ملک میں جمہوری طور پر منتخب ہونے والی پہلی وزیر اعظم تھیں۔
بے نظیر بھٹو کے دونوں ادوار حکومت میں ان کے شوہر آصف علی زرداری کی حیثیت متنازعہ رہی اور ان پر بعد میں آنے والی حکومتوں نے مالی بدعنوانیوں میں ملوث ہونے کا الزام لگایا۔ بعض لوگوں نے یہ بھی الزام دیا کہ ان کی مبینہ مالی بدعنوانیاں بینظیر بھٹو کے اقتدار کے خاتمے کی وجہ بنی۔
بینظیر بھٹو کو کرپشن کے کم سے کم پانچ مقدمات کا سامنا کرنا پڑا لیکن کسی بھی مقدمے میں انہیں سزا نہیں ہوئی اور اس سال اکتوبر میں انہیں قومی مصالحتی آرڈیننس کے تحت ان الزامات سے بری کردیا گیا۔
بینظیر بھٹو نے اپنے اور اپنے شوہر کے اوپر لگنے والے کرپشن کے الزامات کی ہمیشہ تردید کی اور انہیں ان کی کردارکشی کی سیاسی کوششیں قرار دیا۔
بینظیر بھٹو 1999ء میں پاکستان سے باہر چلی گئی تھیں اور آٹھ سال خود ساختہ جلاوطنی میں گزارے جس کے دوران وہ دبئی میں آٹھ سالوں تک اپنے تین بچوں کے ساتھ رہیں۔
خود ساختہ جلاوطنی کے دوران انہوں نے اکثر مغربی ممالک کے دارالحکومتوں کے دورے کیے اور وہاں کے مختلف اداروں میں لیکچرز دیتی رہیں۔
بینظیر بھٹو خودساختہ جلاوطنی ختم کرکے اٹھارہ اکتوبر کو وطن واپس لوٹی تھیں۔ ان کی آمد سے قبل ملک کے فوجی صدر پرویز مشرف نے متنازعہ قومی مصالحتی آرڈیننس جاری کرکے ان کے خلاف قائم کرپشن کے مقدمات ختم کردئے تھے۔
مبصرین کے بقول پرویز مشرف کی فوجی حکومت انہیں انتہاپسندوں کے خلاف جنگ میں اپنا فطری اتحادی سمجھتی تھی۔
اٹھارہ اکتوبر کو بینظیر بھٹو جب پاکستان واپس آئیں تو کراچی میں ان کی آمد پر ایک بار پھر انسانوں کے سمندر نے ان کا استقبال کیا۔ لیکن ان کے جلوس پر خودکش حملہ ہوا جس میں وہ محفوظ رہیں۔ تاہم ڈیڑھ سو کے قریب لوگ مارے گئے اور پانچ سو سے زائد شدید زخمی ہوئے تھے۔
اس واقعے کے بعد انہوں نے پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ انہیں وطن واپس آنے سے پہلے اس خطرے کا علم تھا کہ ان پر حملہ ہوسکتا ہے لیکن وہ جمہوریت اور ملک کے عوام کی خاطر وطن واپس آئیں۔
No comments:
Post a Comment