آج پنڈی کی ایک سڑک پر ایک اور بھٹو کو مار دیا گیا۔ پاکستان کی تاریخ جہاں مختلف جرنیلوں کے مارشل ادوار میں تقسیم ہے تو وہیں بھٹو خاندان کے افراد کے خون سے بھی رنگی ہوئی ہے۔
پچھلے تیس برسوں کے دو مارشل لا ، چار جمہوری دور، دو صدارتی ریفرنڈم اور کئی بد نامِ زمانہ آئینی تبدیلیوں کے ساتھ ساتھ ملک کی کم سے کم دو نسلیں ایک نہیں بہت سی بے نظیروں کے ساتھ جوان ہوئی ہیں۔
جنرل ضیا کی اچانک ہلاکت کے بعد یہ امید اور بھی زور پکڑ گئی اور اب بے نظیر سن اٹھاسی کی پِن اپ رہنما بن کر ابھریں اور کچھ ہی دنوں میں وہ آصف علی زرداری کے ہمراہ ایک حکمران نظر آئیں۔ سندھی اجرک میں ہاتھ ہلاتی بے نظیر کی جگہ اب ایک بہت محتاط اور اپنے امیج سے بہت با خبر بے نظیر نے لے لی۔
اب وہ وزیراعظم بے نظیر تھیں۔
بھٹو خاندان اور پاکستانی ایسٹیبلشمنٹ کے بیچ لو ہیٹ کے اس تاریخی ریلیشن شپ نے جب ایک اور موڑ لیا تو ایک طرف بے نظیر اپنی ہی پارٹی کے صدر کے ہاتھوں پھر سے اقتدار سے باہر ہوتی ہوئی نظر آئیں تو دوسری طرف کراچی کے مِڈ ایسٹ ہوسپٹل کے باہر آدھی رات کو ننگے پاؤں زارو قطار روتی ہوئی بے نظیر کو بھی تو سبھی نے دیکھا تھا جو کبھی تو ایک بے بس وزیراعظم نظر آتی تھی تو کبھی غم سے نڈھال بہن۔
مرتضٰی بھٹو کی ہلاکت اور خاندان کی تقسیم کے بعد بے نظیر بہت عرصے تک بیک فٹ پر رہنے کے بعد وہ پھر نواز شریف کے ہمراہ لندن میں چارٹر آف ڈیموکریسی پر دستخط کرتی نظر آئیں اور اس کے بعد سے وہ بس میڈیا پر چھا گئیں۔
جنرل مشرف کے ساتھ پہلے مفاہمت اور پھر انہیں چیلنج کرنے اور ملک کی اہم جماعتوں کو الیکشن کے بائیکاٹ سے روکنے کے بعد بے نظیر اس وقت کے پاکستان کی سیاست میں کلیدی رول ادا کر رہیں تھیں اور الیکشن کے بعد کی صورتحال میں بھی توقع تھی کہ ان کا سیاسی کردار اہم رہے گا۔
No comments:
Post a Comment