Monday, December 31, 2007

اسٹیبلشمنٹ کا دیو

ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ تین پولیس والے ڈینگیں مار رہے تھے۔ امریکی پولیس والے نے کہا کہ امریکہ میں وہ ایک جرم کو چوبیس گھنٹوں میں حل کر لیتے ہیں اور مجرم کو پکڑ لیتے ہیں۔ دوسرا برطانوی پولیس والا بولا کہ ہم برطانیہ میں بارہ گھنٹے کے اندر مجرم کو پکڑ لیتے ہیں۔ تیسرا پاکستانی پولیس والا تھا وہ دونوں ساتھیوں کی بات سن کر ہنسا اور کہنے لگا کہ ہم تو پاکستان میں جرم ہونے سے چوبیس گھنٹے پہلے ہی پتہ کر لیتے ہیں۔




ثابت یہ ہوا کہ پاکستانی پولیس سب سے زیادہ قبل ہے۔ اب تو معلوم ہوا ہے کہ وزارتِ داخلہ بھی ذہین لوگوں سے بھری ہوئی ہے۔ اب دیکھیں کہ بریگیڈئر چیمہ نے بارہ گھنٹےہ کے اندر بینظیر بھٹو کو موت کی وجہ معلوم کر لی۔ انہوں نے اس جوڈیشل کمیشن کے فیصلے کا بھی انتظار نہیں کیا جس کو بینظیر بھٹو کی موت کی تحقیقات کا حکم دیا گیا ہے اور پھر انتظار کرنے کی کیا خاص ضرورت ہے۔ حکومت نے قتل کے بارہ گھنٹے کے اندر وہ تمام شواہد مٹا دیئے جن سے شاید کچھ معلوم ہوتا کہ گولی کس نے چلائی کہاں سے چلی اور کیا ہوا۔

بینظیر بھٹو کا قتل اس بات کا غماز ہے کہ حکومت کس حد تک جا سکتی ہے۔ دہشت گردی اور القاعدہ وہ تاش کے پتے ہیں جس سے فوج اپنا زور اور اثر رسوخ بڑھا رہی ہے۔

اس ملک کی اسٹیبلشمنٹ کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ اس نے ان لیڈرز کو جو کہ بات کرنے کو تیار ہوتے ہیں ان کو مار دیتی ہے۔ بینظیر بھٹو سے پہلے نواب اکبر بگٹی کا قتل بھی اس بات کا عکاس ہے کہ یہ اسٹیبلشمنٹ گفت و شنید میں یقین نہیں رکھتی۔

اب ہم اس سے کیا سمجھیں کہ بینظیر بھٹو کا قصور یہ تھا کہ وہ گفتگو کرنے میں یقین رکھتی تھیں۔ سچ تو یہ ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کو اب اس کے ساتھ مل کر اندر سے بدلا نہیں جا سکتا۔ یہ اس دیو کی طرح ہے جو زندگیوں اور روحوں کو ہڑپ کر لیتی ہے لیکن اس کی صحت پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔

دہشت گردی کے خلاف جنگ یا ’وار ان ٹیرر‘ شروع ہونے کے بعد سے پاکستان میں جو مفاد پرست عناصر ہیں ان سے یہ سمجھ رکھا ہے کہ دہشت گردی سے جنگ کے بہانے اور ملک کے ایٹمی ہتھیار کی وجہ سے دنیا کی سب طاقتیں ہمیشہ اُن کا ساتھ دیں گی۔

انیس سو سینتالیس کے بعد سے اس مفاد پرست طبقے نے بیرونی طاقتوں کیلے کام کیا ہے جس کے بدلے میں انہیں پیسہ، دولت اور طاقت ملا ہے۔ مفاد پرست ٹولا ملک کی خواص پر مبنی ہے جس میں بڑے سیاستدان، جرنیل اور سرمایہ دار آ جاتے ہیں اور تو اور بڑے بڑے مولوی بھی اس کا حصہ ہیں۔

یہ مفاد پرست سیاست کو پنپنے نہیں دینا اور جہاں کوئی ایسا لیڈر نظر آتا ہے جس کی رسائی عوام تک ہو تو اس مار دیا جاتا ہے۔ مسائل دو ہیں۔ ایک تو یہ کہ ایسی پالسیوں سے پاکستان کمزور سے کمزور ہوتا جا رہا ہے۔ آخر یوگوسلوایہ میں جو ہوا اور جگہوں پر بھی ہو سکتا ہے۔ دوسرا کہ اس ملک کے ٹکڑے ہونے کا بیرونی طاقتوں کی صحت پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ آخر کو پاکستان محض ایک طفیلی یا ’ کلائنٹ‘ ریاست ہے جس سے کسی قسم کا بھی سلوک ہوسکتا ہے۔

مسٹر بھٹو زرداری

یہ ایک بلکل نئی کوریو گرافی ہے۔ سندھی اجرک اور ٹوپیوں میں بینظیر کی قبر پر رات کے اندھیرے میں پھولوں کی چادر چڑھاتی ہوئی پاک فوج اور دن دہاڑے پی پی پی کے نئے چیئر پرسن آصف علی زرداری۔

اے میرے وطن کے سجیلے جنریلو! تم قتل کرتے ہو کہ کرامات کرتے ہو! دیکھتی آنکھوں اور سنتے کانوں ! ماتم کدہ پاکستان میں لاشوں کے نیلام گھر کے نئے طارق عزیز اینڈ کمپنی کا سلام پہنچے۔


اس کی بلٹ پروف گاڑی کی ڈرائیونگ سیٹ پر خالد شہنشاہ، اس کے ساتھ والی سیٹ پر سیکیورٹی انچارج میجر (ریٹائرڈ) امتیاز، پچھلی سیٹ پر مخدوم امین فہیم، ناہید خان اور بینظیر بھٹو جو اب گاڑی کی سیٹ پر خون سے بھرا تالاب، چار قلوں والی ہری چادر، ایک جوتے، اور پاکستان کے کروڑ ہا ورثاء کے باوجود بغیر پوسٹ مارٹم کروائی ہوئی ایک مقتولہ سندھی عورت وزیر اعظم جو سی ون تھرٹی میں چکلالہ ائیرپورٹ سےگڑھی خدا بخش میں دفنا دی گئیں۔

سندھ کی ناخوش وادی کے الم نصیبو جگر فگارو! پنجاب کے وہ پروانے بھی یاد رکھنا جو سندھ کی اس بیٹی پر مر مٹے۔ جنہوں نے خود کش بمار کو نہتے ہاتھوں سے پکڑنے کی کوشش کی۔ بہرے کانوں پر جیالوں کے نعرے ان سنے رہے ’ملک کی مجبوری ہے صنم بھٹو ضروری ہے‘ (اور صنم بھٹو کی اپنی مجبوری تھی)۔



اگست انیس سو نوے میں پرائیم منسٹر ہاؤس سے معزول ہوتی وزیر اعظم کے سامان کے ٹرکوں میں آصف علی زرداری کے گھوڑے اور بلاول کا جھولا بھی ساتھ آئے تھے۔ اب آصف کا تو پتہ نہیں لیکن بلاول بڑا ہوگیا ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی اور انڈین نیشنل کانگرس میں مماثلت ڈونڈھنا عبث ہے کیونکہ نہرو کی پارٹی فیروز گاندھی کو نہ جہیز میں ملی تھی نہ وصیت میں!


کل نیویارک میں پی پی پی کے ایک پرانے کارکن کہہ رہے تھے، ’مگرمچھ کے منہ میں اس وقت بازو نہیں دیا جاتا جب اس کی آنکھ میں انسو ہوں۔‘

سولہ دسمبر

جو گدھ نے آنکھیں چبائيں
نین وہ نذرل کے تھے
ٹیگور کی کوتاؤں جیسی لڑکیاں
جنکے سینے چاک تم نے یوں کیے سنگینوں سے
قرآن نیزے پر اٹھے


چھوٹی چھوٹی بچیاں الہام جیسی بچیاں
مائيں بنیں
غازیوں کی داشتائيں نہ بنیں


تم بضد ہو
بیس لاکھ ہرگز نہیں تھے
انڈین سازش تھی وہ
ہم نے مارے تھے فقط دو ایک لاکھ


سب کے سب غدار تھے عیار تھے مکار تھے
گندے انڈے تھے ہماری ٹوکرئ پاک میں
بہہ گئے خاشاک میں
برہمپترا، میگھنا، کرنافلی
خون سے سب ندیاں ہم نے بھری
ایمان کی طاقت سی تھیں


ہندؤں جیسے وہ تھے
کالے کلوٹے ڈیڑھ فُٹے سالے
بنگالی بہن۔۔۔۔۔


انکی نہ تھی ہم کو ضروت اسقدر
اللہ اکبر الشمس اور البدر
اللہ اکبر

ہم کو زمیں چاہیے تھی بس
شیر سندر بن کے وہ کہتے تھے خود کو
ہوں۔۔۔۔!

شیر تھا جنرل نیازی
اپنا جو ٹکا خان تھا
بس ایک ہی مسلمان تھا


سامنے تھی رانگا ماٹی اور مکتی باہنی
مجیب، تاج الدین احمد، قادر صدیقی ٹائيگر
اور پروفیسر مظفر
ایک سے بس ایک وہ غدار تھا
اپنا بھی ذوالفقار تھا


’خدا کا شکر پاکستان دیکھو بچ گیا‘
گندی انگلی کاٹ ڈالی ہم نے اپنے ہاتھ سے
اور اسی کے ساتھ سے
معصوم نبیوں جیسا جسکا نام
آغا جنرل محمد یحی خان تھا
تو نشان عزم عالیشان تھا
یہ بھی کیا انسان تھا
اسکو بس رائل سلیوٹ


سولہ دسمبر پھر سجائی ہے اسی دیوار پر
ہم نے کیلینڈر پر
ایمرجنسی اٹھانے کیلیے
کیا ہوا نیازی نہیں غازی نہیں
ہم میں ابھی

گدھ بیٹھی ہے منڈیروں پر وہی
کس کی آنکھیں یہ چباتی ہے ابھی
’اے نوائے گلفروش اے نوائے گلفروش‘
کس کے اب پستان کاٹیں گے ہمارے سرفروش
تو بتا! سولہ دسمبر تو بتا!


پھر فتح کا جام یہ روشن کریں گے
کس کے خون و خاک کا
نام پھر روشن کریں گے
سرزمین پاک کا

Friday, December 28, 2007

ایک اور بھٹو کا قتل

آج پنڈی کی ایک سڑک پر ایک اور بھٹو کو مار دیا گیا۔ پاکستان کی تاریخ جہاں مختلف جرنیلوں کے مارشل ادوار میں تقسیم ہے تو وہیں بھٹو خاندان کے افراد کے خون سے بھی رنگی ہوئی ہے۔

پچھلے تیس برسوں کے دو مارشل لا ، چار جمہوری دور، دو صدارتی ریفرنڈم اور کئی بد نامِ زمانہ آئینی تبدیلیوں کے ساتھ ساتھ ملک کی کم سے کم دو نسلیں ایک نہیں بہت سی بے نظیروں کے ساتھ جوان ہوئی ہیں۔

جنرل ضیا کی اچانک ہلاکت کے بعد یہ امید اور بھی زور پکڑ گئی اور اب بے نظیر سن اٹھاسی کی پِن اپ رہنما بن کر ابھریں اور کچھ ہی دنوں میں وہ آصف علی زرداری کے ہمراہ ایک حکمران نظر آئیں۔ سندھی اجرک میں ہاتھ ہلاتی بے نظیر کی جگہ اب ایک بہت محتاط اور اپنے امیج سے بہت با خبر بے نظیر نے لے لی۔

اب وہ وزیراعظم بے نظیر تھیں۔

بھٹو خاندان اور پاکستانی ایسٹیبلشمنٹ کے بیچ لو ہیٹ کے اس تاریخی ریلیشن شپ نے جب ایک اور موڑ لیا تو ایک طرف بے نظیر اپنی ہی پارٹی کے صدر کے ہاتھوں پھر سے اقتدار سے باہر ہوتی ہوئی نظر آئیں تو دوسری طرف کراچی کے مِڈ ایسٹ ہوسپٹل کے باہر آدھی رات کو ننگے پاؤں زارو قطار روتی ہوئی بے نظیر کو بھی تو سبھی نے دیکھا تھا جو کبھی تو ایک بے بس وزیراعظم نظر آتی تھی تو کبھی غم سے نڈھال بہن۔

مرتضٰی بھٹو کی ہلاکت اور خاندان کی تقسیم کے بعد بے نظیر بہت عرصے تک بیک فٹ پر رہنے کے بعد وہ پھر نواز شریف کے ہمراہ لندن میں چارٹر آف ڈیموکریسی پر دستخط کرتی نظر آئیں اور اس کے بعد سے وہ بس میڈیا پر چھا گئیں۔

جنرل مشرف کے ساتھ پہلے مفاہمت اور پھر انہیں چیلنج کرنے اور ملک کی اہم جماعتوں کو الیکشن کے بائیکاٹ سے روکنے کے بعد بے نظیر اس وقت کے پاکستان کی سیاست میں کلیدی رول ادا کر رہیں تھیں اور الیکشن کے بعد کی صورتحال میں بھی توقع تھی کہ ان کا سیاسی کردار اہم رہے گا۔

ایک اور بھٹو کا قتل

آج پنڈی کی ایک سڑک پر ایک اور بھٹو کو مار دیا گیا۔ پاکستان کی تاریخ جہاں مختلف جرنیلوں کے مارشل ادوار میں تقسیم ہے تو وہیں بھٹو خاندان کے افراد کے خون سے بھی رنگی ہوئی ہے۔

پچھلے تیس برسوں کے دو مارشل لا ، چار جمہوری دور، دو صدارتی ریفرنڈم اور کئی بد نامِ زمانہ آئینی تبدیلیوں کے ساتھ ساتھ ملک کی کم سے کم دو نسلیں ایک نہیں بہت سی بے نظیروں کے ساتھ جوان ہوئی ہیں۔

جنرل ضیا کی اچانک ہلاکت کے بعد یہ امید اور بھی زور پکڑ گئی اور اب بے نظیر سن اٹھاسی کی پِن اپ رہنما بن کر ابھریں اور کچھ ہی دنوں میں وہ آصف علی زرداری کے ہمراہ ایک حکمران نظر آئیں۔ سندھی اجرک میں ہاتھ ہلاتی بے نظیر کی جگہ اب ایک بہت محتاط اور اپنے امیج سے بہت با خبر بے نظیر نے لے لی۔

اب وہ وزیراعظم بے نظیر تھیں۔

بھٹو خاندان اور پاکستانی ایسٹیبلشمنٹ کے بیچ لو ہیٹ کے اس تاریخی ریلیشن شپ نے جب ایک اور موڑ لیا تو ایک طرف بے نظیر اپنی ہی پارٹی کے صدر کے ہاتھوں پھر سے اقتدار سے باہر ہوتی ہوئی نظر آئیں تو دوسری طرف کراچی کے مِڈ ایسٹ ہوسپٹل کے باہر آدھی رات کو ننگے پاؤں زارو قطار روتی ہوئی بے نظیر کو بھی تو سبھی نے دیکھا تھا جو کبھی تو ایک بے بس وزیراعظم نظر آتی تھی تو کبھی غم سے نڈھال بہن۔

مرتضٰی بھٹو کی ہلاکت اور خاندان کی تقسیم کے بعد بے نظیر بہت عرصے تک بیک فٹ پر رہنے کے بعد وہ پھر نواز شریف کے ہمراہ لندن میں چارٹر آف ڈیموکریسی پر دستخط کرتی نظر آئیں اور اس کے بعد سے وہ بس میڈیا پر چھا گئیں۔

جنرل مشرف کے ساتھ پہلے مفاہمت اور پھر انہیں چیلنج کرنے اور ملک کی اہم جماعتوں کو الیکشن کے بائیکاٹ سے روکنے کے بعد بے نظیر اس وقت کے پاکستان کی سیاست میں کلیدی رول ادا کر رہیں تھیں اور الیکشن کے بعد کی صورتحال میں بھی توقع تھی کہ ان کا سیاسی کردار اہم رہے گا۔

بینظیر بھٹو:منفرد سیاسی شخصیت کی مالک

پاکستان پیپلز پارٹی کی چئرپرسن بینظیر بھٹو اپنے خاندان کی تیسری فرد ہیں جن کی زندگی سیاست کی بھینٹ چڑھی ہے۔

وہ اور ان کے بھائی میر مرتضی بھٹو اپنے والد ذوالفقار علی بھٹو کے نقش قدم پر چلتے ہوئے سیاست میں آئے تھے اور یہی ان سب کی موت کی وجہ بنی۔ ان کے والد کو فوجی آمر جنرل ضیاء الحق نے 1979ء میں پھانسی پر چڑھایا تھا، اسکے بعد ان کے بھائی مرتضی بھٹو کو 1996ء میں ان ہی کے دور حکومت میں گولیاں مار کر ہلاک کردیا گیا اور جمعرات کو بے نظیر بھٹو کو لیاقت باغ راولپنڈی میں قتل کردیا گیا۔

اس سے قبل ان کے چھوٹے بھائی شاہ نواز بھٹو بھی 1985ء میں جنرل ضیاء الحق کے دور میں فرانس کے دارالحکومت پیرس میں اپنی قیام گاہ پر مردہ پائے گئے تھے۔ بھٹو خاندان کا الزام تھا کہ انہیں زہر دیکر قتل کیا گیا۔

بھارت کے نہرو-گاندھی خاندان کی طرح، پاکستان کا بھٹو خاندان دنیا کے طاقتور ترین سیاسی خاندانوں میں سے ایک ہے۔ بے نظیر بھٹو کے والد ذوالفقار علی بھٹو 70 کے عشرے میں ملک کے وزیر اعظم تھے۔ ان کی حکومت ملک کے قیام کے بعد ان چند حکومتوں میں سے ایک تھی جسے فوج نہیں چلارہی تھی۔

بینظیر بھٹو دو بار پاکستان کی وزیر اعظم بنیں۔ پہلے 1988ء میں اور پھر 1993ء میں لیکن دونوں مرتبہ ان کی حکومت کو دو ڈھائی سال سے زیادہ نہیں چلنے دیا گیا اور کرپشن کے الزام کے تحت برطرف کردیا گیا۔

تاہم 1988ء میں پہلی بار وزیر اعظم بننے کے بعد ان کا شمار دنیا کی چند مقبول ترین خواتین رہنماؤں میں ہونے لگا تھا اور برسر اقتدار آنے کے بعد انہوں نے خود کو مردانہ حاکمیت کی حامل پاکستانی اسٹیبلشمینٹ کے مقابلے میں ایک کامیاب سیاستدان کے طور پر پیش کیا تھا۔

لیکن دوسری بار اقتدار سے نکالے جانے کے بعد بینظیر بھٹو کے اقتدار کو ان کے مخالفین کرپشن اور بے ضابتگیوں کی حکمرانی سے تعبیر کرتے تھے۔

بینظیر بھٹو نے 1953ء میں صوبہ سندھ میں جنم لیا اور اسکے بعد ہارورڈ اور آکسفورڈ یونیورسٹیوں میں تعلیم حاصل کی۔ ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ سیاستدان نہیں بننا چاہتی تھی لیکن اپنے والد کی موت کے سات سالوں بعد جب انہوں نے پاکستانی سیاست میں قدم رکھا تو انہیں اپنے والد کی عوامی مقبولیت کا فائدہ پہنچا۔

جس ثابت قدمی اور ہمت کےلیے نظیر بھٹو شہرت رکھتی تھیں وہ سب سے پہلے اس وقت دیکھی گئی جب ان کے والد کو جنرل ضیاء الحق نے اقتدار پر قبضہ کرکے 77ء میں جیل میں ڈال دیا تھا اور ان پر قتل کا مقدمہ بنایا تھا جس کے دو سالوں بعد انہیں سزائے موت دیدی گئی۔

جنرل ضیاء الحق کی حکومت نے بے نظیر کو ان کے والد کی موت سے پہلے قید کردیا تھا اور انہوں نے جیل میں اپنا زیادہ تر وقت قید تنہائی میں گزارا۔ بے نظیر بھٹو نے قید کے حالات کو سخت ترین قرار دیا تھا۔

علاج کی غرض سے جیل سے رہائی کے بعد انہوں نے لندن میں پیپلز پارٹی کا دفتر قائم کیا اور جنرل ضیاء الحق کے خلاف مہم شروع کی تھی۔پھر وہ 1986ء میں پاکستان واپس گئی تھیں جہاں ان کا شاندار استقبال کیا گیا۔

1988ء میں فوجی طیارے کے حادثے میں جنرل ضیاء الحق کی موت کے بعد وہ کسی اسلامی ملک میں جمہوری طور پر منتخب ہونے والی پہلی وزیر اعظم تھیں۔

بے نظیر بھٹو کے دونوں ادوار حکومت میں ان کے شوہر آصف علی زرداری کی حیثیت متنازعہ رہی اور ان پر بعد میں آنے والی حکومتوں نے مالی بدعنوانیوں میں ملوث ہونے کا الزام لگایا۔ بعض لوگوں نے یہ بھی الزام دیا کہ ان کی مبینہ مالی بدعنوانیاں بینظیر بھٹو کے اقتدار کے خاتمے کی وجہ بنی۔

بینظیر بھٹو کو کرپشن کے کم سے کم پانچ مقدمات کا سامنا کرنا پڑا لیکن کسی بھی مقدمے میں انہیں سزا نہیں ہوئی اور اس سال اکتوبر میں انہیں قومی مصالحتی آرڈیننس کے تحت ان الزامات سے بری کردیا گیا۔

بینظیر بھٹو نے اپنے اور اپنے شوہر کے اوپر لگنے والے کرپشن کے الزامات کی ہمیشہ تردید کی اور انہیں ان کی کردارکشی کی سیاسی کوششیں قرار دیا۔

بینظیر بھٹو 1999ء میں پاکستان سے باہر چلی گئی تھیں اور آٹھ سال خود ساختہ جلاوطنی میں گزارے جس کے دوران وہ دبئی میں آٹھ سالوں تک اپنے تین بچوں کے ساتھ رہیں۔

خود ساختہ جلاوطنی کے دوران انہوں نے اکثر مغربی ممالک کے دارالحکومتوں کے دورے کیے اور وہاں کے مختلف اداروں میں لیکچرز دیتی رہیں۔

بینظیر بھٹو خودساختہ جلاوطنی ختم کرکے اٹھارہ اکتوبر کو وطن واپس لوٹی تھیں۔ ان کی آمد سے قبل ملک کے فوجی صدر پرویز مشرف نے متنازعہ قومی مصالحتی آرڈیننس جاری کرکے ان کے خلاف قائم کرپشن کے مقدمات ختم کردئے تھے۔

مبصرین کے بقول پرویز مشرف کی فوجی حکومت انہیں انتہاپسندوں کے خلاف جنگ میں اپنا فطری اتحادی سمجھتی تھی۔

اٹھارہ اکتوبر کو بینظیر بھٹو جب پاکستان واپس آئیں تو کراچی میں ان کی آمد پر ایک بار پھر انسانوں کے سمندر نے ان کا استقبال کیا۔ لیکن ان کے جلوس پر خودکش حملہ ہوا جس میں وہ محفوظ رہیں۔ تاہم ڈیڑھ سو کے قریب لوگ مارے گئے اور پانچ سو سے زائد شدید زخمی ہوئے تھے۔

اس واقعے کے بعد انہوں نے پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ انہیں وطن واپس آنے سے پہلے اس خطرے کا علم تھا کہ ان پر حملہ ہوسکتا ہے لیکن وہ جمہوریت اور ملک کے عوام کی خاطر وطن واپس آئیں۔

لیاقت باغ میں کون مرا؟

آج راولپنڈی کی مشہور جلسہ گاہ لیاقت باغ کے باہر ہونے والے بم دھماکے میں کون مرا؟ ہر طرف صرف اور صرف بینظیر بھٹو کا نام لیا جا رہا ہے۔ لیکن وہاں تو اور بھی بہت کچھ تھا۔

ملک کی سب سے بڑی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی بھی تو وہیں تھی۔ پاکستان بھر میں کئی ہفتوں سے جاری انتخابی عمل بھی تو وہیں کہیں پھر رہا تھا۔ آخری خبریں آنے تک اسی جلسہ گاہ میں وفاق کی سیاست بھی دیکھی گئی۔ کوئی کہتا ہے کہ جمہوریت بھی اسی کے ہاتھ میں ہاتھ ڈالے کھڑی تھی۔ اور ان لاکھوں بے نام خواہشوں کا تو ذکر ہی کیا جو لیاقت باغ سے دور ہوتے ہوئے بھی وہیں کہیں گھومتی دیکھی گئیں۔ ان سب کا کیا بنا؟

راولپنڈی اسلام آباد میں سناٹا ہے۔ کہیں کہیں کوئی بچا کھچا ٹائر شاید ابھی تک سلگ رہا ہو لیکن جدھر دیکھو ہو کا عالم نظر آتا ہے۔ کوئی نہیں جو بتائے کہ پاکستان پیپلز پارٹی، انتخابی عمل، وفاق کی سیاست، جمہوریت اور عوامی امنگیں کس حال میں ہیں۔

پاکستان پیپلز پارٹی نے تو شاید بینظیر بھٹو کے ساتھ ہی دم توڑ دیا ہو۔ بیچاری میں جان ہی کتنی تھی؟ گیارہ سال تو جنرل ضیاالحق کے ہاتھوں پٹی۔ پھر اپریل انیس سو چھیاسی میں جب بینظیر بھٹو واپس آئیں تو خیر خواہوں نے ان کی منتیں کیں، ان کے آگے ہاتھ جوڑے کہ کچھ اور کرنے سے پہلے اپنی پارٹی کو سنبھالو۔ پارٹی الیکشن کراؤ اور اسے ایک منتخب اور فعال قیادت دو۔

لیکن بتیس سالہ بینظیر بھٹو کچھ اور ہی دھن میں تھیں۔ انہیں اتنے کام جو کرنے تھے۔ وزیر اعظم بننا تھا، اپنے باپ کے عدالتی قتل کا بدلہ لینا تھا اور حکومت میں آ کر وہ تمام کالے قوانین ختم کرنے تھے جو فوجی حکمرانوں نے اپنی سیاست کی خاطر بھوکے کتوں کی طرح ملکی سیاست پر چھوڑ رکھے تھے۔

جب بینظیر بھٹو اس کے پاس ہوتیں تو پارٹی پیار کی شادی کرنے والی ایک نو بیاہتا دلہن کی طرح چہکتی۔ اور جب ان کو جلاوطن ہونا پڑتا تو وہ بنارس کی بیواؤں کی طرح پھیکی پڑ جاتی۔ شاید یہی وجہ تھی کہ بینظیر بھٹو دو بار وزیر اعظم بننے کے باوجود بھی نا تو اپنے باپ کے قتل کا بدلہ لے سکیں اور نہ ہی ان کالے قوانین کو ختم کر سکی جو اپنی کوکھ میں انتہا پسندی کا عفریت پال رہے تھے۔

اب ایسی لاچار پارٹی اتنے بڑے دھماکے میں کہاں بچی ہو گی؟ اور اگر بچ بھی گئی ہو تو اپنی روح یعنی بینظیر بھٹو کے بغیر اور کتنا جی لے گی؟

ایسا ہی کچھ حال شاید ملک بھر میں جاری اس لولے لنگڑے انتخابی عمل کا بھی ہو جسے ہر روز اگر ایک طرف سے پذیرائی ملتی تو دوسری جانب سے دھتکار۔ ویسے ہی پہلے دن سے ہی بیچارہ ضلعی حکومتوں کے نرغے میں تھا جو اسے ہر روز درندوں کی طرح نوچتی تھیں۔ اب سننے میں آ رہا ہے کہ اس وقت وہ صدارتی محل میں پڑا کراہ رہا ہے۔ کیا پتا شاید جانبر ہو ہی جائے۔ اور اگر مر بھی گیا تو کیا؟ وقت آنے پر پھر کوئی باوردی مسیحا اس میں روح پھونک دے گا۔ فی الحال اس کی فکر کرنا محض وقت کا ضیاع ہو گا۔

شاید زیادہ فکر وفاق کی سیاست کی کرنی چاہیئے۔ اس کے تو زیادہ دوست یار بھی نہ تھے جو برے وقت میں اس کی مدد کو لپکتے۔ مسلم لیگ قاف کے رہنما تو ابھی تک پنجاب تک ہی محدود تھے۔ انہیں نہ تو سندھ کی فکر تھی نہ بلوچستان اور نہ ہی سرحد کی۔ متحدہ قومی موومنٹ اور فنکشنل لیگ جیسی جماعتیں سندھ تک محدود تھیں جبکہ متحدہ مجلس عمل اور عوامی نیشنل پارٹی صوبہ سرحد کی سرحدوں میں بند۔ ایک بینظیر بھٹو ہی تو تھیں جنہیں پاکستان میں وفاق کی علامت کہا جاتا تھا۔

رہی بات جمہوریت کی تو اس کے ہونے یا نہ ہونے کی کسے پرواہ؟ یہ پاکستان ہے، انتہا پسندوں کی سر زمین جہاں سیاسی مخالفین کو ملک دشمن کہا جاتا ہے اور قانون کی حکمرانی کی بات کرنے والوں کو ملکی سالمیت کے لیے زہر قاتل۔ راولپنڈی میں ہونے والے دھماکے سے بہت پہلے ہی جمہوریت کی شکل اس قدر مسخ ہو چکی تھی کہ اگر وہ اس دھماکے میں بچ بھی گئی ہو تو اسے پہچانے گا کون؟

ابھی ابھی کسی نے کہا کہ رات کے پچھلے پہر سردی اس قدر بڑھ گئی ہے کہ بینظیر بھٹو کے قتل پر احتجاج کرنے والے بھی گھروں کو لوٹ چکے ہیں۔ اب ایسے ماحول میں ان لاکھوں عوامی امنگوں کا کیا ذکر جو بینظیر بھٹو کے ساتھ ہی جلسہ گاہ میں گھوم پھر رہی تھیں۔

پھر بھی خیال تو آتا ہی ہے۔ کوئی ان سب کا پتا تو کرے کہ ان کا ہوا کیا؟ پیپلز پارٹی، جمہوریت، وفاق کی سیاست، ان سب کا کیا ہوا؟ کوئی بچا بھی یا۔۔۔

فوج کو زمین کیوں چاہئے؟

فوج اور فوجیوں کو زرعی زمین دینے کا سلسلہ بہت پرانا ہے اور انگریزوں کے زمانے سے چلا آ رہا ہے۔

اس زمانے میں انگریز سرکار ہر نئی آباد ہونے والی زمین کا دس فیصد حصہ فوجیوں کو دیا کرتی تھی۔ انیس سو بارہ کا’کولونائزیشن آف لینڈ ایکٹ‘ ایک ایسا قانون ہے جو انگریزوں نے بنایا تھا اور جس کے تحت انیس سو سینتالیس سے پہلے سے لے کر اب تک فوجیوں کو زمین دی جاتی رہی ہے۔

اس کے علاوہ انگریز کے زمانے میں گھوڑی پال مربعے دینے کا رواج تھا تا کہ ہندوستانی افواج کے لوگ انگریز سرکار کے تابع رہیں۔ یہ قانون اب تک نہیں بدلا گیا ہے اور اس کے تحت تقریباً بیس لاکھ ایکڑ زمین ملک کے مختلف حصوں میں فوجی افسران اور سپاہیوں کی دی جا چکی ہے۔ فوجی یا ملٹری فارمز اس کے علاوہ ہیں۔

یاد رہے کہ انیس سو ساٹھ کے عشرے میں فوجی افسران کو سندھ میں بھی زمین دی گئی تھی اور یہ سلسلہ انیس سو ستر اور اسّی کی دہائیوں میں بھی جاری رہا۔ لیکن فوج کو زمین کیوں ملتی ہے، یہ سوال اب کیوں اٹھایا جا رہا ہے؟ یہ ایک انتہائی اہم نکتہ ہے۔

اس بات کے منظر عام پر آنے کی تین وجوہات ہیں: پہلی یہ کہ انیس سو اسی کی دہائی سے زمین حاصل کرنے کے معاملے کو زیادہ منظم کر دیا گیا ہے۔

انیس سو اسّی میں جنرل ضیاءالحق کے دور حکومت میں فوج کے تینوں بازؤوں کے فوجی افسران اور سپاہیوں کو زمین یا گھر الاٹ کرنے کا انتظام کیا گیا۔ اس سکیم کے تحت ماہانہ قسطوں کے عوض فوجیوں کو ریٹائرمنٹ پر ایک بنا بنایا گھر ملتا تھا۔ اس وجہ سے فوج کو دی جانے والی زمینوں کا رقبہ مزید بڑھ گیا۔

دوسری وجہ یہ ہے کہ زمین کی قیمت میں اضافے کے ساتھ لوگ اس بات سے مزید آگاہ ہونے لگے کہ فوج کو بہت سی زمین تقسیم کی جا رہی ہے۔

اور تیسری بات یہ کہ ملکی سیاست میں فوج کی دراندازی سے یہ معاملہ زیادہ ابھر کر سامنے آیا ہے۔

میں نے اپنی زیر طبع کتاب، ملٹری انک (Military Inc) کے سلسلے میں، جس میں زمین کا مسئلہ بھی زیر غور ہے، بہت سے فوجی افسران سے اس حوالے سےگفتگو کی کہ آیا یہ درست ہے کہ فوجیوں کو زمین ملنی چاہیے؟

اکثر کی رائے یہ تھی کہ ایک فوجی جو اپنے ملک کے لیے جان دینے کے لیے تیار ہوتا ہے، اسے زمین دینے میں کوئی قباحت نہیں ہونی چاہیے۔ یہ زمین اس کی ذہنی آسودگی کا سبب بنتی ہے جس کے بعد وہ اپنا کام بہتر طور پر کر سکتا ہے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ جس فوجی افسر سے بھی اس موضوع پر بات کی اس نے میری توجہ ہزاروں سِول ملازمین کی جانب مبذول کرائی جو اپنی ملازمت سے بیش بہا فائدے اٹھاتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ اگر ایک ڈپٹی کمشنر یا ایس۔پی پولیس اس قدر فائدے حاصل کرتا ہے تو کیا حرج ہے کہ فوجی بھی فائدہ اٹھا لے؟

چند افسران ایسے بھی تھے جنہوں نے گفتگو کے دوران اس بات کا اظہار کیا کہ ایسا نہیں ہونا چاہیے۔ یعنی زمین کی یوں تقسیم نہیں ہونی چاہیے۔ لیکن اس کے بعد چند سِول اداروں کے ذکر کر کے، جو ’اپنی ضرورت سے زیادہ فائدہ اٹھاتے ہیں” یہ بات وہیں ختم ہو گئی۔

حقیقت یہ ہے کہ جس ملک کے پاس اتنے وسائل نہ ہوں جس سے وہ اپنے ملازمین کی آسودگی کا بندوبست کر سکے اور جہاں قانون پر عمل درآمد بہت کم ہو، وہاں لوگ اور ادارے اپنے اختیارات کے زور پر کچھ ایسے فائدے اٹھاتے ہیں جو باقی افراد کی دسترس سے باہر ہوتے ہیں۔ اور فوج خود کو اعلیٰ ترین ادارہ قرار دیتی ہے، جس کے ملازمین کی فلاح و بہبود بےحد ضروی ہے۔

اصولاً اس بات میں کوئی ایسا مسئلہ نظر نہیں آتا کہ فوج یا کسی اور ادارے کو زمین دی جائے۔ لیکن پھر اور بہت سے غیر فوجی لوگ بھی ہیں جنہیں زمین ملنی چاہیے۔ اس کے علاوہ اس زمین کے مستحق خصوصاً ان فوجیوں کے اہل خانہ ہیں جنہوں نے ملک کی حفاظت کے لیے جان دی۔

لیکن دیکھنے میں یہ آیا ہے کہ بہت سے اعلیٰ افسران نے نہ صرف اس سکیم سے فائدہ اٹھایا ہے بلکہ اپنے اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے زمین کو قابلِ کاشت بھی بنایا ہے جس کے باعث یہ معاملہ عوام کی نظروں میں مزید ابھر کر سامنے آیا ہے۔

پاکستان میں اکاؤنٹنگ کا ایسا کوئی طریقہ نہیں ہے جس سے سرکار کو یہ معلوم ہو سکے کہ اس کے پاس کتنی زمین موجود ہے؟ لہذا اب تک یہ ہوتا رہا ہے کہ فوج کو جس طرح کی اور جہاں بھی زمین پسند آ جائے، وہ اسے زورِ بازو سے حاصل کر لیتی ہے۔

اس طرح سے حاصل کی گئی زمین کو آباد کرنے کے لئے سرکاری خزانے سے خرچ کیے گئے پیسے کا بھی کوئی حساب یا ریکارڈ نہیں ہے۔ ایک فوجی جنرل کے مطابق ایسی روایت کا ختم ہونا ضروری ہے اور سرکار کو چاہیے کہ وہ شہری یا زرعی زمین صرف ایک مخصوص مدت کے لیے کسی فوجی کو دے اور مقررہ عرصے کے بعد یہ زمین واپس لی جائے۔

تاہم ایسا ہوتا دکھائی نہیں دیتا۔ فوج کے اعلیٰ افسران کو جنہیں اپنے اختیارات کا احساس بھی ہے اور ان کو ایک عام سپاہی سے کہیں زیادہ زمین ملتی ہے، ان سے زمین کی واپسی کی توقع بےسود ہے۔

فوج کے ایک عام سپاہی کو پندرہ سے بیس ایکڑ اور اعلیٰ افسر کو پچاس سے دو سو ایکڑ تک زمین دی جاتی ہے۔ اس کے لئے ایک پوائنٹس کا نظام استعمال کیا جاتا ہے جس کے حساب سے تمغے ملنے اور زیادہ لمبی نوکری سے پوائنٹ زیادہ ہوتے ہیں۔

انیس سو سینتالیس کے بعد زمین اس اصول کو سامنے رکھ کر تقسیم کی جاتی تھی کہ سرحد کے قریبی علاقوں میں کوئی بھی کاشت کاری کے لیے تیار نہیں ہوتا۔ لہذا مقامی لوگوں کو سہولیات فراہم کرنے کے بجائے کہ وہ ان زمینوں کو آباد کر سکیں، یہ طے کر لیا گیا کہ صرف فوجی ہی اپنے آبائی گھر چھوڑ کر ان زمینوں کو آباد کریں گے۔

تاہم یہ بات قطعی درست نہیں کہ فوج کے جانے سے ہی دور دراز علاقے آباد ہوئے۔ کئی مواقع پر ایسا بھی ہو چکا ہے کہ مقامی لوگوں کی آباد کردہ زمینیں فوج کو دے دی گئیں۔

فوج کو زمین کیوں دی جاتی ہے اور اس کا قومی سلامتی پر کیا اثر پڑتا ہے؟ اس بارے میں پیش کئے جانے والے تمام مفروضوں کی آج کے دور میں کوئی گنجائش نہیں۔

یہ بات اپنی جگہ بالکل سچ ہے کہ فوج اور سرکاری ملازمین کو فرائض کی صحیح انجام دہی کے لیے سہولیات کی ضرورت ہے لیکن زمینوں کے معاملے میں فوج کی سیاسی طاقت اور اختیار کا اہم کردار ہے۔ اسی طاقت کا استعمال کرتے ہوئے فوجیوں کو وسائل یا زرعی زمین مہیا کی جاتی ہے۔

اور تاحال ایسی کوئی صورت نظر نہیں آتی کہ اس مسئلے پر حقیقی بنیادوں پر غور کر کے اس کا سدِباب کیا جائے۔

استعفی کون دے گا

صدر جنرل پرویز نے نو مارچ کو ججوں کی رہائش گاہوں میں جاسوسی کے آلات لگانے والی ایجنسیوں کے اعلی حکام کی موجودگی میں چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری سے استعفی لینے کی پانچ گھنٹے کی ناکام کوشش کے بارے میں بارہا یہ اعتراف کیا ہے کہ کیس کو مِس ہینڈل کیا گیا اور جو ریفرنس انہوں نے عجلت میں تشکیل دی جانے والی سپریم جوڈیشل کونسل کے سامنے بھیجا اسکے ذمے دار وہ نہیں بلکہ وزیرِ اعظم شوکت عزیز ہیں۔ اور جب وزیرِ اعظم اس طرح کا کوئی ریفرنس بھیجتا ہے تو صدر آئینی طور پر پابند ہوتا ہے کہ وہ یہ ریفرنس نہ روکے بلکہ کاروائی کے لئے متعلقہ ادارے کے سپرد کردے۔

اسکے ساتھ ہی ساتھ گزشتہ چار ماہ کے دوران صدرِ مملکت سے لے کر وزیرِاعظم شوکت عزیز اور وزیرِ قانون وصی ظفر سے لے کر سرکاری وکلاء تک ہر ایک یہ گردان کررہا ہے کہ عدالت کا جو بھی فیصلہ آیا اسے خوشدلی سے تسلیم کرکے اسکا پورا احترام کیا جائے گا۔

لیکن کیا صرف یہ کہہ دینا کافی ہے کہ عدالت کا فیصلہ خوشدلی سے تسلیم کرلیا جائے گا یا دائر کردہ ریفرنس کی طرح اس خوش دلی کا کوئی ٹھوس ثبوت بھی مہیا کیا جائے گا۔

لیکن صدر مشرف جو پچھلے چار ماہ کے دوران اپنے استعفی کے سوال پر گول مول جواب دینے یا بات بدل دینے کے عادی رہے ہیں اب بھی بڑی آسانی سے یہ دلیل دے کر جان چھڑا سکتے ہیں کہ میرا اس ریفرنس سے کیا لینا دینا۔ میں تو صرف ایک پوسٹ آفس کا کام کررہا تھا۔اصل ذمہ داری تو شوکت عزیز اور انکی حکومت پر آتی ہے جنہوں نے یہ ریفرنس تیار کیا۔ میں نے تو صرف اس ریفرنس کو آگے بڑھا دیا۔ میں کیوں ذمہ داری قبول کروں یا استعفی دوں۔

تو کیا صدر مشرف وزیرِ اعظم شوکت عزیز کا استعفی طلب کر کے یا برطرف کر کے آج کے عدالتی فیصلے کو خوشدلی سے قبول کرنے کا ثبوت دیں گے۔ کیونکہ یہ شوکت عزیز کی جانب سے بجھوایا جانے والا ہی ریفرنس تو تھا جس کے نتیجے میں ملک کا طول وعرض گو شوکت گو کہ بجائے گو مشرف گو کے نعروں سے گونج اٹھا اور عدالت کے آج کے فیصلے کے نتیجے میں نہ صرف یہ ریفرنس غیر قانونی بلکہ ایک خونی ریفرنس بھی ثابت ہوا جس کے نتیجے میں بارہ مئی کو کراچی میں پچاس اور فیصلے سے تین روز قبل اسلام آباد میں چیف جسٹس کے استقبالیے کے باہر خود کش حملے کے نتیجے میں اٹھارہ افراد جاں بحق ہوئے۔گویا اس ریفرنس نے صرف آئینی نظائر کو ہی نہیں بلکہ اڑسٹھ انسانی جانوں کو بھی روند ڈالا۔

اگر صدر مشرف آج کے بعد سٹیل مل کیس ہارنے والے اور سٹاک ایکسچینج سکینڈل میں اپنے دامن پر پڑنے والے چھینٹوں کو مسکراتے ہوئے دھونے والے شوکت عزیز کو رخصت کرنے کے فیصلے کو اپنی ساکھ کی کمزوری پر محمول کرتے ہیں تو کیا ان لوگوں کے خلاف کوئی ایکشن لیا جائے گا جنہوں نے یہ ریفرنس شوکت عزیز کو تھما کر اور شوکت عزیز نے صدر مشرف کو تھما کر اور صدر مشرف نے عجلت میں بلائی جانے والی سپریم جوڈیشل کونسل کو تھما کر ایک دوسرے کی جگ ہنسائی کا خوب خوب سامان فراہم کیا۔

جو حکومت ایک چیف جسٹس کو اپنے بیٹے کی سفارش اور پٹرول کی جعلی رسیدوں جیسے الزامات کے تحت سبکدوش کرنا چاہتی تھی خود اس حکومت کی سبکدوشی کے لئے آخر کتنے اور سکینڈل درکار ہیں۔

ڈوپنگ کون کررہا ہے؟

انیس سو پچھتر میں جب امریکہ ویتنام کی شکست کے زخم چاٹ رہا تھا امریکی سینیٹ کی خارجہ تعلقات کمیٹی نے دنیا بھر میں سی آئی اے کی ان خفیہ سرگرمیوں کو لگام دینے کا فیصلہ کیا جن کے نتیجے میں امریکی امیج تباہ ہورہا تھا۔

سی آئی اے کے اہلکاروں کو شہادت کے کٹہرے میں کھڑا کیا گیا اور پابند کیا گیا کہ آئندہ وہ کسی ایسے منصوبے پر عمل نہیں کریں گے جو کانگریس کے علم میں نہ ہو اور جس کی حکومت نے قانونی اجازت نہ دی ہو۔ چنانچہ اگلے کم ازکم چوبیس برس کے لیے سی آئی اے کے پر کاٹ دئیے گئےاور کسی نے بھی اس وقت یہ نہیں کہا کہ سی ائی اے ایک حساس قومی ادارہ ہے اور اس کے معاملات پر کھلے عام بحث سے ملکی سالمیت خطرے میں پڑ سکتی ہے۔

پاکستان میں سینکڑوں لوگوں کی پراسرار گمشدگی میں ایجنسیوں کے مبینہ کردار پر پارلیمان میں کوئی سوال اٹھنا تو درکنار جب ہائی کورٹ وزارتِ دفاع کے وکیل سے کہتی ہے کہ وہ اپنی ماتحت ایجنسی سے فلاں لاپتہ آدمی کے بارے میں معلوم کرکے بتائیں تو وکیل کا جواب یہ ہوتا ہے کہ وزارتِ دفاع کا اس ایجنسی پر انتظامی اختیار نہیں ہے۔

اسرائیل نے انیس سو بیاسی اور پھر جولائی دوہزار چھ میں لبنان میں اسرائیلی فوج کے طرزِ عمل اور ناکامیوں کی چھان بین کے لیے عدالتی کمیشن مقرر کئیے۔

بھارت نے انیس سو ننانوے میں کارگل کے محاز پر فوجی غفلت کی چھان بین کے لیے نہ صرف تحقیقاتی کمیشن بٹھایا بلکہ اسکی رپورٹ بھی ویب سائٹ پر شائع کردی لیکن پاکستان میں اگر صدر مشرف سے پوچھا جائے کہ کارگل پر چہ مگوئیوں کے خاتمے کے لیے آخر کوئی تحقیقاتی کمیشن کیوں تشکیل نہیں دیا جاتا تو ان کا جواب ہوتا ہے کہ گڑھے مردے اکھاڑنے سے کیا فائدہ۔

اسی طرح جوہری ٹیکنالوجی کی غیر قانونی اسمگلنگ کے بارے میں پاکستان پر پچھلے دو برس سے مسلسل سوالیہ نشان ہے اور ہر کچھ عرصے بعد پاکستانی وزارتِ خارجہ کو صفائی پیش کرنی پڑتی ہے۔اگر ڈاکٹر قدیر کے اسمگلنگ ریکٹ کے بارے میں حکومتِ پاکستان اپنے طور پر کوئی غیر جانبدار تحقیقاتی کمیشن قائم کردیتی تو بہت سے منہ بند ہوجاتے اور یہ بھی پتہ چل جاتا کہ چوبیس ٹن کے جوہری آلات اکیلے ڈاکٹر قدیر نے اسمگل کئیے یا ان کے کچھ اور معاون بھی یہ وزن ڈھونے میں شریک تھے۔

پاکستان میں قومی سانحات کی چھان بین کی صرف ایک مثال حمود الرحمٰن کمیشن کی شکل میں دستیاب ہے۔اس کی رپورٹ پر عمل ہونا تو کجا اسے اتنے طویل عرصے بعد شائع کیا گیا کہ بیشتر کلیدی کردار دنیا سے جاچکے تھے۔

عجیب بات ہے کہ جب شعیب اختر اور محمد آصف نے پرفارمنس میں اضافے کے لیے ادویات کا غیر قانونی استعمال کیا تو پاکستان نے ازخود تحقیقات کرکے یہ موقف اختیار کیا کہ اس سے کرکٹ کی دنیا میں پاکستان کا وقار بلند ہوگا اور ساکھ میں اضافہ ہوگا۔

لیکن جن کرداروں نے پوری قوم کے ساتھ ڈوپنگ کی اور کررہے ہیں ان کے خلاف کسی بھی طرح کی تحقیقات کا مطالبہ حساس قومی معاملہ کہہ کر قالین کے نیچے دبا دیا جاتا ہے۔

جنرل کو کیا ملے گا؟

تو آخر پھر آرمی چیف پرویز مشرف اپنے عہدے سے دستبردار ہو ہی گئے۔

سروس کے آخری دن وہ خاصے آزردہ تھے۔ اور آخر کیوں نہیں؟ آخر انہوں نے پاک فوج میں اتنے دن گزارے ہیں اور اس ادارے نے ان کے ساتھ خاصا اچھا سلوک کیا ہے۔

آپ اس کا اندازہ اس سے لگائیں کہ انہیں گھر جاتے وقت بھی خالی ہاتھ نہیں بھیجا گیا۔ پینشن تو خیر کوئی خاص مراعات میں سے نہیں۔ یہ تو ہر سول اور فوجی ملازم کو ملتی ہے۔ پاکستان حکومت ہر سال کوئی پینتیس بلین (ارب) روپے فوجی پینشن کی مد میں خرچ کرتی ہے اور اس کا بڑا حصہ بڑے افسران کے کھاتے میں جاتا ہے کیوں کہ وہ ہی سب سے زیادہ وقت فوج میں گزارتے ہیں جب کہ فوج کا ایک بڑا حصہ کپتان یا میجر تک پہنچتے پہنچتے ریٹائر ہو جاتا ہے۔ سب سے زیادہ سروس جرنیل کی ہوتی ہے خاص طور پر اس جرنیل کی جو حکومت پر حکمراں ہو جاتا ہے۔

مثلاً پرویز مشرف تقریباً تیس لاکھ روپے نقد لے کرگھر جائیں گے اور ان کی ماہانہ پینشن بھی کوئی پینتالیس یا پچاس ہزار کے لگ بھگ ہو گی۔ پینشن کی رقم کا زیادہ دار و مدار اس بات پر ہوتا ہے کہ افسر نے کتنے سال سروس میں گزارے۔

اس کے علاوہ ریٹائر ہونے والے ہر چیف کو ایک بڑی گاڑی درآمد کرنے کی اجازت ہوتی ہے۔ تمام پرانے سروس چیفس کے پاس ایک مرسیڈیز پائی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ تین یا چار ملازم جو تا حیات رہتے ہیں اور جن کی تنخواہ اور کھانا سرکار دیتی ہے۔ فوجی کلبوں کی ممبر شپ، مفت علاج اور ایک گھر اس شہر میں جہاں وہ رہنا چاہیں ملتا ہے۔

لیکن قصہ یہیں ختم نہیں ہو جاتا۔ ہر فوجی افسر کو ملازمت کے کچھ عرصے کے بعد کوئی نہ کوئی شہری یا زرعی جائیداد ملتی ہے۔ پہلی جائیداد پندرہ سال کی سروس کے بعد، دوسری پچیس سال، تیسری اٹھائیس سال اور آخری تینتیس سال کی سروس کے بعد ملتی ہے۔

اس کے علاوہ مختلف ہاؤسنگ سکیموں کے بھی اپنے مزے ہیں۔ کوئی حیرت کی بات نہیں کہ صدر صاحب اس وقت کروڑوں کی جائیداد کے مالک ہیں۔ ان کی جائیداد کا تخمینہ کوئی چالیس سے پینتالیس کروڑ کے لگ بھگ ہے۔

ارے کوئی ہمیں بھی فوج میں ملازمت دلوا دے۔

برقعے کے پیچھے کیا

جب تین ماہ قبل لاہور کے اجوکا تھیٹر نے برقعہ ویگنزا نامی پرفارمنس پیش کی تو جنرل پرویز مشرف کی روشن خیال انتظامیہ نے اس پر یہ کہہ کر پابندی لگا دی کہ اس سے لوگوں کے مذہبی جذبات مجروح ہو رہے ہیں۔ حالانکہ اس ڈرامے میں محض ان امکانات کی بات کی گئی تھی جو برقعے کی آڑ میں ممکن ہیں۔

اسلام آباد کی لال مسجد کے مہتمم مولانا عبدالعزیز نے تو خیر اب فرار کے لیے برقعہ استعمال کیا لیکن تاریخ برقعے کے طرح طرح کے استعمال کے واقعات سے بھری پڑی ہے۔

یہ تو خیر عام بات ہے کہ سرپھرے نوجوان کبھی کبھار گرلز کالجز کے سامنے برقعہ اوڑھ کے لڑکیوں کو خوفزدہ یا تنگ کرتے ہیں۔ اس طرح کی خبریں بھی آتی رہتی ہیں کہ بینکوں کے باہر بل جمع کرانے یا یوٹیلٹی سٹورز کے باہر لمبی لمبی قطاروں میں کھڑے کھڑے تنگ آنے والے کسی مرد نے زنانہ قطار میں برقعہ پہن کر موقع سے فائدہ اٹھانا چاہا اور راز فاش ہونے پر عورتوں سے پٹ گیا۔

لیکن ایسا کونسا طبقہ ہے جس نے برقعے کا فائدہ نہ اٹھایا ہو۔

اشتہاری ملزم پولیس مقابلے کے دوران گھیرا توڑنے کے لیے برقعہ میں چھپ کر فرار ہونے کی کوشش کرتے ہیں۔ بوسنیا کے دارالحکومت سرائیوو میں گزشتہ سال دو برقعہ پوش ڈاکوؤں نے بینک ڈکیتی میں چالیس ملین ڈالر لوٹ لیے۔

دو برس قبل صوبہ سرحد کے شہر مردان میں القاعدہ کا اہم رکن ابوالفراج ال لبی شٹل کاک برقعے میں موٹر سائیکل پر فرار ہوتے ہوئے پکڑا گیا۔ اس کو پکڑنے والے آئی ایس آئی کے مسلح اہلکار بھی برقعے پہن کر ایک قریبی قبرستان میں
ال لبی کا انتظار کر رہے تھے۔

بی بی سی کے سینئر رپورٹر جان سمپسن اور ان کے کیمرہ مین کو نائن الیون کے بعد طالبان کے افغانستان میں برقعہ پہنا کر ہی پشاور سے ننگر ہار پہنچایا گیا تھا۔

اور طالبان حکومت کے خاتمے کے بعد قندھار میں طالبان کے معروف کمانڈر ملا محمود کو بھی نیٹو کے دستوں نے برقعے میں ہی پکڑا تھا۔

مشہورِ عالم گلوکار مائیکل جیکسن جب چند برس قبل بحرین گئے تو انہیں لوگوں کے ہجوم سے بچنے اور شاپنگ کرنے کے لیے عربی برقعے میں باہر نکلنا پڑا جبکہ بالی وڈ کے معروف موسیقار ہمیش ریشمیا گزشتہ ہفتے اجمیر میں خواجہ غریب نواز کی درگاہ پر پہنچے تو انہیں ایک جھلک دیکھنے والوں سے ہاتھ پاؤں بچانے کے لیے برقعہ اوڑھ کر غریب نواز کی چوکھٹ پار کرنا پڑی۔

پاکستانی سیاست میں بھی برقعے نے کئی رنگ بکھیرے ہیں۔

جب انیس سو تریپن میں احمدی فرقے کے خلاف پنجاب میں ختمِ نبوت کی تحریک چلی اور لاہور میں مارشل لا لگانا پڑا تو تحریک کے ایک مرکزی رہنما مولانا عبدالستار نیازی کو گرفتاری سے بچنے کے لیے برقعے کا سہارا لے کر روپوش ہونا پڑا۔

اسی دوران جب گورنر جنرل غلام محمد نے وزیراعظم ناظم الدین کی حکومت اور آئین ساز اسمبلی کو برخواست کردیا تو اسمبلی کے سپیکر مولوی تمیز الدین خان کو سندھ چیف کورٹ کی عمارت تک پہنچانے اور آئینی پیٹیشن داخل ہونے تک پولیس سے بچانے میں برقعے نے اہم ترین کردار ادا کیا۔

مولانا کوثر نیازی جو پیپلز پارٹی میں آنے سے قبل جماعتِ اسلامی میں فعال تھے۔ ایوبی دور میں انہیں ایک مرتبہ لاہور کی مسجد وزیرخان میں تقریر کے دوران جب پولیس گرفتار کرنے پہنچی تو ان کے حامیوں نے مولانا کوثر نیازی کو ایک خالی دیگ میں ڈال کر باہر پہنچایا جہاں سے وہ برقعہ پہن کر رفوچکر ہونے میں کامیاب ہوگئے۔

جب تک برقعہ موجود ہے مرد اس میں عورتوں کو بھی چھپاتے رہیں گے اور خود کو بھی۔

وردی برقعہ ہوچکی

بہت ہی ضیعف بزرگوں کے پاس اگر آپ بیٹھیں تو کبھی کبھار وہ یہ ضرور بتائیں گے کہ انگریز کے زمانے میں وردی کا اتنا دبدبہ تھا کہ اگر ایک معمولی پولیس والا کسی گاؤں میں ملزم کی تلاش میں داخل ہوجاتا تو سب کی گھگی بندھ جاتی تھی اور پولیس والا مطلوبہ ملزم کو ہتھکڑی نہیں لگاتا تھا بلکہ اسی کے صافے سے ہاتھ پیچھے باندھ کر کوتوالی تک پیدل لے جاتا تھا۔

اگر آپ کسی پچپن ساٹھ برس کے شخص کو ذرا سا بھی کریدیں تو وہ آپ کو ضرور بتائے گا کہ کس طرح جب پہلا ملک گیر مارشل لاء لگا تھا تو سیاسی کارکن روپوش ہوگئے تھے۔ بستہ الف کے بدمعاش بالکل الف ہوگئے تھے۔ دوکانداروں نے مارے ڈر کے قیمتیں کم کردی تھی۔ ذخیرہ اندوز اپنے گوداموں کی تفصیل لے کر خود باوردی مارشل لاء حکام کے سامنے حاضر ہوجاتے تھے۔ لوگوں نے راتوں رات غیر قانونی ہتھیار گلیوں اور میدانوں میں پھینک دیے تھے اور جرمانے کے خوف سے گلیاں اور محلے خود بخود صاف ہونے لگے تھے۔ مبادا فوجی افسران کوئی سزا نہ دے دیں۔

لیکن جیسے جیسے وردی عام آدمی کو کبھی کبھار کی بجائے ہر وقت نظر آنے لگی وردی کا دبدبہ بھی جھاگ ہونے لگا۔ صرف دس برس کے اندر بات یہاں تک پہنچ گئی کہ ڈھاکے کا ایک عام سا بنگالی رکشہ ڈرائیور بھی چھ فٹ کے وردی والے کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر سامنے سے گزرنے لگا۔

وقت نے یہ بھی دکھا دیا کہ جو سیاسی کارکن ایوب خان اور یحیی خان کے مارشل لاء ادوار میں وردی کی دہشت سے دبک کر بیٹھ گئے تھے اور بہت سوں نے معافی نامے بھی لکھ کر دیے تھے۔ انہی کی اولادوں نے جنرل ضیا کے ننگے مارشل لاء کے دوران پیٹھ پر کوڑے کھا کر اور گلے میں پھندا ڈال کر وردی کے دبدبے کو سوالیہ نشان بنا دیا۔

شاید اسی سے حوصلہ پا کر دس برس بعد آسمان نے یہ منظر بھی دیکھا کہ پنجاب جیسے وفادار صوبے کے لاکھوں مزارعوں نے ملٹری فارمز کی انتظامیہ کی جانب سے خود کو بے دخل کرنے کی کوششوں کی اس طرح مزاحمت کی کہ باوردی حکام حیران و پریشان رہ گئے۔

دبدبہ فاصلے سے پیدا ہوتا ہے اور جب من و تو کی تمیز ہی ختم ہوجائے تو پھر کیسا دبدبہ، کونسا ڈر اور کہاں کا وقار۔

زندگی کے ہر شعبے میں مداخلت اور مفادات میں حصہ داری کی شدید خواہش نے وردی کی حرمت کو جس طرح ضرب لگائی ہے۔اس کے نتیجے میں نوبت یہ آگئی ہے کہ ایک سرکاری مسجد کے مولوی سے لے کر بلوچستان کے مفلوک الحال قبائلی تک، مصلحت پسند تاجر سے لے کر کسی بھی سیاسی جماعت کے کنگلے کارکن تک ایک سڑک چھاپ دانشور سے لے کر ایک لاغر سے صحافی تک ہر ایرا غیرا وردی والوں کے منہ کو آرہا ہے۔

ایسے میں صدرِ مملکت کی یہ ضد بہت عجیب سی لگتی ہے کہ وردی ہی ان کی طاقت کا سرچشمہ ہے۔

کیا اب بھی یہ حقیقت تسلیم کرنے کا وقت نہیں آیا کہ وردی اور دبدبہ ماضی کی کہانی ہوچکی۔ اب تو یہ فکر کرنی چاہیے کہ وردی اور برقعے میں جو فرق رہ گیا ہے کہیں وہ بھی نہ مٹ جائے۔

نذیر عباسی: ایک کمیونسٹ کا قتل

ضیاء دور میں نذیر عباسی نے قلی کیمپ کوئٹہ سے رہائی پائی تو انہوں نے اپنا احوال بیان کرتے ہوئے مجھے بتایا تھا کہ خفیہ اداروں کے اہلکاروں کا کہنا ہے کہ تم نے کام بند نہیں کیا اور اب کے پکڑے گئے تو زندہ نہیں بچوگے۔

سال انیس سو اسی میں ان اہلکاروں نے یہ بات سچ ثابت کرکے دکھائی اور نذیر عباسی دوران تفتیش ہلاک ہو گئے۔

اب تو بہت کچھ بدل چکا ہے۔ حکومت اور امریکہ کو نہ کسی کے کمیونسٹ ہونے پر اورنہ کمیونسٹ پارٹی پر اعتراض ہے۔ پچاس کی دہائی سے لے کرسوویت یونین کے ٹوٹنے تک کمیونسٹ ہونا حکومت کے لیے ایسا تھا جیسے سانپ کی دم پر پاؤں رکھ لیا ہو۔

جب بھی کوئی اہم موڑ آیا اور کوئی کمیونسٹ مقبول لیڈر کے طور پر ابھرا، حکومت نے اسے حسن ناصر اور نذیر عباسی کی طرح زندہ نہیں چھوڑا یا جام ساقی کی طرح تب تک قید رکھا کہ وہ ذہنی یا جسمانی طور پر اپاہج ہو جائے۔

اس لیے پارٹی اور اس کے لیڈر اور کارکن زیرِ زمین یعنی روپوش ہو کر کام کرتے تھے۔

افغانستان میں کمیونسٹ انقلاب کے بعد پاکستان کی حکومت ڈری ہوئی تھی کہ کہیں یہاں پر بھی کوئی ایسا انقلاب نہ آ جائے۔ اس زمانے میں پارٹی نے ’چھینو چھینو پاکستان، جیسے چھینا افغانستان‘ کے موضوع سے ایک ہینڈ بل شائع کیا جو ملک بھر میں تقسیم کیا گیا۔

یہ ہینڈ بل اشاعت سے لے کر اور بعد میں بھی خاصا متنازع رہا کہ واقعی پاکستان کے کمیونسٹ اس پوزیشن میں ہیں یا تھے کہ وہ افغانستان کی طرح یہاں انقلاب لے آتے؟

بہر حال افغان انقلاب کے بعد پاکستان حکومت کی نظر میں کمیونسٹ اور زیادہ خطرناک ہوگئے تھے۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ لوگوں میں کمیونسٹوں کی مقبولیت بڑھ رہی تھی۔

جام ساقی کی گرفتاری پاکستان کے کمیونسٹوں کے لیے بڑا دھچکا تھا۔ دوسرا دھچکا کمیونسٹ پارٹی کے ٹریڈ یونین فرنٹ پر کام کرنے والے اور مقبول مزدور رہنما شمیم واسطی کی گرفتاری تھی۔

حکومت نےتیسرا وار انیس سو اسی میں کیا جب حکومت پارٹی کے تین خفیہ مقامات کا سراغ لگانے میں کامیاب ہو گئی جو پارٹی کے دفاتر کے طور پر کام کرتے تھے۔ یوں ضیاء حکومت پارٹی کے سرکردہ رہنما گرفتار کرنے اور اس کا نیٹ ورک توڑنے میں کامیاب ہوگئی۔

فوج کے خفیہ اداروں نے کراچی کی ایک کچی آبادی میں چھاپا مار کر وہاں سے پروفیسر جمال نقوی، نذیر عباسی، کمال وارثی اور شبیر شر کو گرفتار کر لیا۔
بعد میں اسی مقدمے میں میری اور بدر ابڑو، امر لال کو بھی گرفتار کیا گیا۔

یہ مقدمہ بعد میں جام ساقی کیس کے طور پر مشہور ہوا۔ ملک کے نامور سیاستدان بینظیر بھٹو، ولی خان، میر غوث بخش بزنجو، اور دیگر رہنما کمیونسٹوں کے دفاع کے لیے گواہوں کے طور پر فوجی عدالت میں آئے۔

جام ساقی کی گرفتاری کے بعد نذیر عباسی بتدریج ان کی کمی کو پورا کر رہے تھے۔ وہ نوجوان، باصلاحیت، نڈر اور سیاسی حلقوں میں جانے پہچانے جاتے تھے۔ نذیر عباسی اور پارٹی کے دیگر رہنماؤں کو یہ یقین تھا کہ جام ساقی کو ایک طویل عرصے تک رہائی نہیں ملنے والی۔

نذیر عباسی سے میری پہلی ملاقات ستّر کی دہائی کے شروع میں ہوئی جب بنگال میں فوجی آپریشن چل رہا تھا۔ اس ملاقات کے بعد ہم نے ایک ساتھ پارٹی کی طلبا تنظیم سندھ نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن میں کام کیا۔

اکثر اوقات ایسا بھی ہوتا تھا کہ ہم لوگ یونیورسٹی سے سیدھے حیدرآباد میں واقع ٹریڈ یونین آفس آتے تھے اور وہاں پرمختلف کارخانوں میں مزدوروں کے مسائل پر چلنے والی جدوجہد میں ان کی مدد کرتے تھے۔ ٹریڈ یونین کے ساتھی بشیربہرا، محبوب علی، عبدالحئی، اشفاق پیارے، چاچا مرتضیٰ، چاچا مظہر، قلندر بخش مہر، زمان خان ہوتے تھے۔ کئی مرتبہ ایسا بھی ہوا کہ ہم نے کئی کئی راتیں کالی روڈ کے علاقے میں مزدوروں کی بستیوں میں گزاریں۔ اس دوران ان سے مزدور تحریک اور سیاسی صورتحال پر بات چیت کرتے تھے اور اسٹڈی سرکل چلاتے تھے۔ ہماری اس کوشش کے نتیجے میں بعض مزدور لیڈر پارٹی ممبر بنے۔

بقول نذیر کے کمیونسٹ کام ہمہ جہتی ہوتا ہے۔ ہم اگر طلباء محاذ پر کام کر رہے ہیں تو اپنے آپ کو طلبہ تک محدود نہیں رکھنا چاہیے۔ اسی طرح سے جن جن جگہوں پر ہاری تنظیمیں ہوتی تھیں یا ہاریوں کی جدو جہد چل رہی ہوتی تھی تو نذیر ہمیں وہاں بھی لے جاتے تھے۔ جب یونیورسٹی میں پڑھنے والے طلبا ہاریوں یا مزدوروں میں جاتے تھے تو ان کا حوصلہ بڑھتا تھا۔

جب ہم گاڑی کھاتہ میں اترے تو سب سے پہلے پکوڑے اور ڈبل روٹی خریدی اور ہوٹل میں بیٹھ کر چائے پی۔ نذیر کے کہنے پر پکوڑے والے اور ہوٹل والے کو میں نے پیسے دیئے اور اسٹیشن کی طرف چل پڑے۔ راستے میں وہ بڑے پراسرار انداز میں مسکرائے بتایا کہ پیسے اس کے پاس بھی نہیں ہیں۔ میں نے کہا پھر کیسے چلیں گے نوابشاہ۔ ہم لوگ بغیر ٹکٹ کے ریل گاڑی میں بیٹھ گئے۔ پورا راستہ میں جھگڑتا رہا کہ یہ کیا بے وقوفی ہے۔ پکڑے گئے تو کیا ہوگا؟ انہوں نے کہا کہ ’کوئی آیا تو بتائیں گے کہ طالب علم ہیں اور ہاریوں کے لئے جا رہے ہیں۔ دوسری بات یہ کہ اگر کام کرنا ہی ہے تو سمجھو ہر صورت میں کرنا ہے۔‘

مجھے یاد ہے کہ جب سندھ یونیورسٹی میں سیاسی کام کرتے تھے تو وہ اپنے آبائی شہر ٹنڈوالٰہ یار سے آتے تھے۔ یونیورسٹی سے واپسی پر بس میں دن بھر کے کام کا جائزہ لینے کے لیے نوٹس کا تبادلہ کرنا ہوتا تھا لیکن وہ بس میں سوئے ہوئے ہی ملتے تھے۔

نذیر عباسی پر شادی کرنے کا مقدمہ بھی دائر کیا گیا کہ انہوں نے شادی کے نام پر سیاسی جلسہ کیا ہے۔ انہیں گرفتار کرکے کوئٹہ کے قلی کیمپ میں رکھا گیا۔

اسی عرصے میں ان کے والد کا انتقال ہوا لیکن انہیں آخری دیدار کے لیے بھی رہا نہیں کیا گیا۔ پانچ ماہ کے بعد انہیں ڈرامائی انداز میں رہا کیا گیا۔

ایک دن مذاق میں کہا کہ ’دیکھو میں اور حمیدہ بلوچستان کے پہاڑوں کی سیر کر کے آئے ہیں۔ حمیدہ مچ جیل میں تھیں اور میں کوئٹہ کے قلی کیمپ میں۔‘ شادی کے بعد ان کی بیوی حمیدہ جو کہ پارٹی کی کارکن تھیں، کو ’پٹ فیڈر ہاری تحریک‘ میں گرفتار کر لیا گیا تھا۔

قلی کیمپ کوئٹہ سے واپسی پرپارٹی نے انہیں احتیاط کرنے کی ہدایت کی۔ اس کے بعد نذیر روپوش ہوگئے اور روپوشی میں پارٹی کا کام پہلے سے بھی زیادہ لگن کے ساتھ جاری رکھا۔

تیس جولائی انیس سو اسی کو نزیر عباسی دوبارہ گرفتار ہوگئے اور نو اگست کو انہیں اذیتیں دے کر قتل کر دیا گیا۔ انہیں ایدھی نے غسل اور کفن دیا اور ایک لاوارث کی طرح سخی حسن قبرستان کراچی میں دفنایا گیا۔

گرفتاری کے بعد تحقیقات کے دوران مجھے معلوم نہیں تھا کہ کون کون گرفتار ہے۔ ہاں یہ ضرور ہوا کہ اگست کے مہینے میں ایک دن کچھ افسران آئے اور آ کر میری طبیعت پوچھی اور کہا کہ ٹارچر تو نہیں ہوا ہے۔ مجھے بہت تعجّب ہوا کہ آج اچانک ان کا لب ولہجہ اتنا نرم اور انسانیت والا کیوں ہے۔ میں اس رویے کو ڈرامہ سمجھتا رہا جو اکثر اوقات تحقیقات میں خفیہ ادارے اپناتے ہیں۔ لیکن دراصل یہ سب کچھ نذیر کی موت کے بعد ہوا تھا۔

تحقیقات میں تقریباً دو ماہ گزارنے کے بعد جب مجھے جیل بھجوانے کے لیے ایک مجسٹریٹ کے سامنے پیش کیا گیا تو اس وقت پروفیسرجمال نقوی کو بھی لایا گیا تھا۔ جیل جاتے وقت پولیس کی گاڑی میں میں نے پروفیسر کو بتایا کہ حالات خاصے خراب ہیں سخت سزائیں آئیں گی۔ یہ کسی کو لٹکانا چاہ رہے ہیں۔ پروفیسر کا کہنا تھا کہ نہیں، تب تک حالات میں تبدیلی آ جائے گی۔ میرا یہ شبہ درست ثابت ہوا۔ انہوں نے کسی عدالت کے ذریعے تو سزا نہیں دی لیکن تشدد کے ذریعے ایک ساتھی کو مار دیا۔

نذیر نے مر کر بہت ساروں کو بچایا۔ اپنے نظریے اور پارٹی کی ساکھ کے ساتھ ساتھ ساتھیوں کو بھی، جو گرفتار تھے اور جو باہر تھے۔

وہ ایک خوش مزاج، سریلی آواز والے نڈر انسان تھے۔ ایک ایسی شخصیت جو اصولوں پر سودے بازی کے لیے سوچ بھی نہیں سکتی۔

جنرل ضیاء کی موت کے بعد بینطیر بھٹو حکومت نے ایک ادھوری کوشش کی کہ نذیر عباسی کے قتل کا مقدمہ دوبارہ کھولا جائے لیکن تب تک دنیا ہی بدل چکی تھی۔ کمیونسٹ پارٹی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو چکی تھی اور اس معاملے کی مطلوبہ پیروی نہ ہونے کی وجہ سے ایک کمیونسٹ کا قتل جس کے خاصے شواہد بھی موجود تھے، ملزمان کے خلاف نہیں چلایا جا سکا۔

ایکٹو یا ریڈیو ایکٹو لوگ

تین روز قبل جب میں ملتان سے ڈیرہ غازی خان پہنچا تو چند ہی گھنٹے بعد ایک ایسی وی آئی پی شخصیت میں تبدیل کردیا گیا جس کی حفاظت پر ایک ایس ایچ او، سپیشل برانچ کے کچھ سادہ کپڑے والے اور کاؤنٹر انٹیلی جینس کے ایک دو دوست مامور کردئیےگئے۔

ان سب کو میری حفاظت اتنی عزیز تھی کہ انہوں نے ہوٹل میں میرے کمرے کے سامنے والا کمرہ لے لیا۔ پولیس کی ایک گاڑی ہوٹل کے باہر کھڑی رہی اور ایک صاحب مستقل ریسیپشن پر بیٹھے رہے۔

یہ سب نہایت خوش اخلاقی سے پیش آئے اور بار بار اس طرح کے جملے کانوں میں رس گھولتے رہے کہ سر کہیں یہ نہ سمجھئے گا کہ ہم آپ کی نگرانی کررہے ہیں۔ آپ جہاں چاہیں جا سکتے ہیں۔ بس ہمیں چھوٹا بھائی سمجھ کر اپنے پروگرام کے بارے میں بتادیں۔آپ جس سے چاہیں ملیں ہم آپ کی حفاظت کریں گے۔ آپ ہمارے مہمان ہیں۔اچھا تو سر آپ کا موبائل نمبر کیا ہے۔ کیا آپ پہلے بھی ڈیرہ غازی خان تشریف لاتے رہے ہیں۔ اس دفعہ کب تک قیام فرمائیں گے۔ یہاں سے اگلا پروگرام کیا ہے سر۔ کیا آپ کو اس بارے میں کوئی اطلاع ہے کہ عاصمہ جہانگیر بھی یہاں پہنچ رہی ہیں۔ کیا آپ کی ان سے آنے سے پہلے یا پھر اب ملاقات کا کوئی پروگرام ہے۔ کیا آپ یہاں ایٹمی فضلے کی ڈمپنگ کے کیس پر بات کرنے آئے ہیں۔ مائنڈ نہیں کیجئے گا سر یہ ہم صرف اور صرف اپنی ذاتی معلومات کے لیئے پوچھ رہے ہیں۔ ہم بی بی سی بڑے شوق سے سنتے ہیں۔

جس ہوٹل میں اڑتالیس گھنٹے میرا قیام رہا اس کا مینجر اتنی ٹینشن میں آ گیا کہ اس نےپوچھ ہی لیا کہ سر کمرے کا کرایہ تو مل جائے گا نا؟

سچی بات تو یہ ہے کہ اس مرتبہ میں ڈیرہ غازی خان محض پرانے دوستوں سے ملنے گیا تھا۔

میرا سٹوری ڈھونڈنے کا کوئی ارادہ نہیں تھا لیکن یہ کہانی خود چل کر میرے سامنے آگئی کہ حکومت اور ایجنسیاں یورنیم کی کانکنی کے علاقے بغلچور میں مناسب حفاظتی تدابیر اختیار اور مقامی لوگوں کو اعتماد میں لئے بغیر ایٹمی فضلے کو اس علاقے میں دفن کرنے کے معاملے پر پارلیمنٹ، سپریم کورٹ اورذرائع ابلاغ میں مچنے والے شور سے کس قدر پریشان ہے۔

حکومت نے فی الحال اسکا یہ حل نکالا ہے کہ وہ علاقے میں ریڈیو اکٹوٹی یعنی تابکاری اثرات کی سائنسی چھان بین، متاثرہ آبادی کے جسمانی اور طبی تحفظ کی فکر کرنے کے بجائے علاقے کی ناکہ بندی کردے اور اس معاملے کو حساس نوعیت اور قومی سلامتی کے قالین تلے چھپادے۔

مسئلہ ایٹمی فضلے کو ٹھکانے لگانے کا نہیں بلکہ محفوظ طریقے سے ٹھکانے لگانے کا ہے تاکہ علاقے کی زمین، ہوا اور پانی آلودہ نہ ہو اور علاقے کے لوگ اسکے نتیجے میں پھیلنے والے ممکنہ سرطان اور جیناتی خرابیوں کا شکار نہ ہوں لیکن حکومت کا خیال ہے کہ یہ مسئلہ اٹھانا دراصل قومی ایٹمی پروگرام کو نقصان پہنچانے کی بین الاقوامی سازش کا حصہ ہے۔

اگر حکومت ان سب باتوں کو بے بنیاد پروپیگنڈہ سمجھتی ہے تو پھر بغلچور اور رونگھن کے علاقے کی ناکہ بندی کی کیا ضرورت ہے جبکہ وہاں مدت سے یورنیم کی کانکنی بھی نہیں ہورہی۔

ڈیرہ غازی خان کے ایک مقامی دانشور کے بقول جب لوگ اپنے حقوق کے لیئے ایکٹو نہیں ہوں گے تو پھر ریڈیو ایکٹو ہوں گے۔

نجکاری کا بدمست ہاتھی

پاکستان میں جس طرح ستّر کا عشرہ بینکاری، جہاز رانی، صنعت، تعلیم اور صحت کے اداروں سے لے کے چاول چھڑنے والے چھوٹے چھوٹے کارخانوں سمیت ہر قابلِ ذکر شئے کو قومی ملکیت میں لینے کے سبب یاد رکھا جائے گا اسی طرح بیسویں صدی کا آخری اور اکیسویں صدی کا پہلا عشرہ نجکاری کے لیئے یاد رہے گا۔

اس دوران قومی اثاثوں سمیت ہر شئے کو پرائیوٹائز کرنے کا عمل شروع ہوا اور منافع بخش اداروں کو بھی یا تو اونے پونے فروخت کر دیا گیا یا کیا جا رہا ہے۔

جتنے اندھا دھند طریقے سے نیشنلائزیشن کی گئی تھی اسی طریقے سے پرائیوٹائزیشن جاری ہے۔نہ تو ستّر کے عشرے میں قومی ملکیت میں لیئے گئے اداروں کی کارکردگی پر نظر رکھنے کے لیئے کوئی موثر طریقِ کار وضع کیا گیا اور نہ ہی اب نجکاری میں دئیے گئے اداروں پر نگاہ رکھنے کے لیئے کوئی ریگولیٹری ڈھانچہ نظر آتا ہے۔ جس طرح قومی ملکیت کے سفید ہاتھی نے سرمایہ کاری کے امکانات کو روند ڈالا تھا اسی طرح نجکاری کا بدمست ہاتھی عام آدمی سمیت ہر شئے کچل رہا ہے۔

تیل کمپنیاں آزاد ہیں کہ جب چاہیں جیسے چاہیں پٹرول کی قیمت مقرر کریں۔دواساز کمپنیوں کو کھلی چھوٹ ہے کہ دوا کے نام پر جیسے چاہیں جو چاہیں فروخت کریں۔ہسپتال مریض کو جو سہولت دیں یا نہ دیں اپنی مرضی سے پیسے لیں۔

تعلیمی ادارے فیس کے نام پر جو رقم چاہیں بٹوریں اور یہ بھی خود فیصلہ کریں کہ کس معیار کی تعلیم دیں گے۔ کاریں بنانے والی کمپنیاں آزاد ہیں کہ خریدار سے یک مشت ساری رقم لے کر بینک میں رکھ لیں اور یہ فیصلہ خود کریں کہ کار کی ڈلیوری کتنے ماہ بعد کرنی ہے۔ چینی اور سیمنٹ کے کارخانے اپنی جتنی پیداوار مارکیٹ میں جس قیمت پر بھی بیچیں کوئی پوچھنے والا نہیں۔

کہنے کو روزمرہ اشیائے ضرورت کی سستی فراہمی کے لیئے ایک سرکاری پرائس کنٹرول لسٹ بھی موجود ہے اور قیمتوں اور اشیاء کے معیار کو جانچنے والا ایک ادارہ بھی قائم ہے۔لیکن آپ کسی گوشت، سبزی، پھل یا پرچون کی دکان پر جا کر ذرا اس لسٹ کے مطابق خریداری پر اصرار کرکے دیکھیں یا ٹیکسی اور رکشے سے میٹر کے مطابق چلنے کی فرمائش کریں یا کسی بس اور ویگن میں سامنے لگی لسٹ کے مطابق کرایہ دینے پر اصرار تو کریں۔آپ کو جواب میں ایک زوردار قہقہہ سنائی دے گا۔

صحت، تعلیم، رہائش ، روزگار اور اشیائے ضرورت کی نجکاری کے بعد اب انصاف اور قانون کی نجکاری کا عمل بھی تقریباً مکمل ہوچکا ہے۔ سراغرساں ایجنسیاں ، رینجرز اور پولیس پوری طرح آزاد ہیں کہ وہ کسی بھی شہری کو کہیں سے بھی جب چاہیں جتنی مدت کے لیئے اٹھا کر غائب کردیں۔ایف آئی آر درج کریں یا نہ کریں۔عدالت کے سامنے پیش کریں یا جج کے سامنے ملزم کے وجود سے صاف مکر جائیں۔

عدالتی نظام بھی فری مارکیٹ اصول کے تحت کام کر رہا ہے۔انگریزی قانون کی عدالت، شرعی عدالت، خصوصی سماعت کی فوجی عدالت، انسدادِ دہشت گردی کی عدالت، جرگہ عدالت، پنچائتی عدالت۔ بولیئے کیا چاہیئے؟

تحفظ کا نظام بھی پرائیوٹائزڈ ہے۔ ذاتی باڈی گارڈز رکھیں گے یا پولیس گارڈز چاہیں گے۔ قبضہ گروپ کا تحفظ لیں گے یا پھر کسی سیاسی تنظیم یا مسلح ملیشیا کی پناہ میں آئیں گے۔اس سے زیادہ فری مارکیٹ چوائس آپ کو کہاں ملے گی۔

بس ایک شئے ایسی ہے جو شائد کبھی نجکاری کے عمل سے نہ گزرے اور وہ ہے اقتدار۔

میں جہاں بھی گیا اے عرض وطن
تیری تذلیل کے داغوں کی جلن
اپنوں کی بے وفاءیوں کی کڑھن
غیروں کے نیزوں کی چبھن

تیرے سپاہیوں کے ہاتھوں پہ
تیرے بیٹوں کا لہو
تیری بیٹیوں کی عزتوں کے تار
تیرے محافظوں کے گلوں کے ہار
تو ہی قاتل ، تو ہی منصف
تو ہی دشمن ، توہی دوست
سارے عالم میں تیری تباہی کے قصے
تیری بربادی میں "اپنوں کے حصے"
تیری گلیوں میں
اب "مظلوم"رہتے ہیں
ظلم کرتے تھے
ظلم سہتے ہیں
بےحس تھے
بے بس ہیں
نہ کوءی تمنا، نہ حرف دعا
نہ رسم الفت، نہ عہد وفا
اب کون تیرے لیءے جیتا ہے؟
اب تیرے نام پہ کون مرتا ہے؟
اب توگھر لوٹنے سے ڈر لگتا ہے
اب توگھر لوٹنے سے ڈر لگتا ہے

فوج کی اپنے ملک پر پہلی یلغار

پاکستان کی انسٹھ سالہ تاریخ میں ملک اور اس کا جمہوری نظام فوجی طالع آزماؤں کی اتنی زیادہ یلغاروں کے گرداب میں گرفتار رہا ہے کہ لوگوں کے ذہنوں سے یہ بات معدوم ہوتی جارہی ہے کہ پہلی یلغار کب آئی تھی اور اس کے عوامل اور اسباب کیا تھے اور اس کے نتائج کے سائے کتنے گہرے، لمبے اور مہلک تھے۔

تاریخ سات تھی لیکن مہینہ یہی اکتوبر کا تھا جو پاکستان کی تقدیر میں سیاسی رہنماؤں کے قتل، سیاسی اتھل پتھل، انقلابات اور قدرتی آفات سے عبارت ہے۔

قیام پاکستان کے تین مہینہ بعد ہی کشمیر پر قبائلیوں کی چڑھائی کے نتیجہ میں ستائیس اکتوبر کو کشمیر میں ہندوستانی فوج کی آمد نے پورے برصغیر کی تقدیر ہی الٹ کر رکھ دی اور جنگوں، فوجی معرکہ آرائیوں اور کشیدگیوں کا دائمی سلسلہ شروع ہوگیا۔

پھر ملک کے پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان اسی مہینہ میں قتل ہوئے۔ یہ راز ابھی تک نہیں کھل سکا ہے کہ اس قتل کے پیچھے کس کا ہاتھ تھا؟ وہ خود اپنے ناراض ساتھیوں کی عداوت کا نشانہ بنے یا کوئی غیر ملکی طاقت انہیں راہ سے ہٹانا چاہتی تھی؟

ملک کی نوخیز جمہوریت پر پہلا وار بھی اکتوبر ہی کے مہینہ میں ہوا جب سن چون میں گورنر جنرل غلام محمد نے آنًا فانًا دستور ساز اسمبلی توڑ دی اور ملک کو سیاسی بحران کی تاریکی میں دھکیل دیا۔

پاکستان کی جمہوریت پر تازہ وار بھی سات سال قبل اکتوبر ہی کے مہینہ میں ہوا جب جنرل مشرف نے اقتدار پر قبضہ کیا۔

اور پھر ایک سال پہلے اسی مہینہ میں پاکستان اور اس کے زیر انتظام کشمیر میں وہ ہولناک اور تباہ کن زلزلہ آیا جس نے نہایت سفاکانہ انداز سے تہتر ہزار افراد کو موت کی گھاٹی میں دھکیل دیا اور اب بھی ہزاروں افراد بے سرو سامانی کے عالم میں زندگی گزار رہے ہیں۔

غرض سات اکتوبر سن اٹھاون کو جنرل ایوب خان کی قیادت میں فوج نے منتخب وزیر اعظم ملک فیروز خان نون کی حکومت کا تختہ الٹ کر اقتدار پر تسلط جمایا تھا- یہ پہلا حملہ تھا پاکستان کی فوج کا خود اپنے ملک پر، اس کے جمہوری نظام پر جس کے بعد پاکستان کبھی نہ سنبھل سکا اور فوجی طالع آزماؤں کے لیئے ملک پر یلغاروں کا راستہ کھل گیا۔

سات اکتوبر سن اٹھاون کے فوجی ’انقلاب‘ کے لیئے راہ در اصل سن تریپن ہی سے ہموار ہونی شروع ہوگئی تھی جب گورنر جنرل غلام محمد نے پارلیمینٹ میں بجٹ کی منظوری اور اعتماد کے ووٹ کے فورًا بعد وزیر اعظم خواجہ ناظم الدین کو اچانک برطرف کر دیا تھا اور امریکہ میں پاکستان کے سفیر محمد علی بوگرا کو وطن بلا کر وزارت اعظمی پر فائز کردیا تھا۔ لوگوں کو یہ جاننے میں بہت دیر نہیں لگی کہ غلام محمد نے یہ اقدامات کس کی شہہ پر اور کس کے بل پر کیئے تھے۔

چوبیس اکتوبر سن چون کو گورنر جنرل غلام محمد نے یک لخت دستور ساز اسمبلی توڑنے کا ڈرامائی اقدام کیا۔ اس کے پس پشت سب سے بڑی وجہ ملک میں آبادی اور طاقت کے لحاظ سے صوبوں میں عدم توازن تھا- دستور ساز اسمبلی نے اپنی تحلیل سے ذرا پہلے سات سال کے طویل عرصہ کے بعد ملک کے پہلے آئین کے خاکہ کے بارے میں بنیادی اصولوں کی کمیٹی کی جو رپورٹ منظور کی تھی، دستور ساز اسمبلی میں پنجاب مسلم لیک کے اراکین جن کی قیادت ملک فیروز خان نون کر رہے تھے اس کے سخت خلاف تھے۔ ان کو خدشہ تھا کہ اس رپورٹ پر مبنی نئے آئین کا بڑی حد تک جھکاؤ مشرقی پاکستان کے حق میں رہے گا جو آبادی کے لخاظ سے سب سے زیادہ اکثریت والا صوبہ تھا۔ انہیں خطرہ تھا کہ پنجاب کو نہ صرف پارلیمینٹ اور سیاسی میدان میں بلکہ بیوروکریسی اور فوج میں بری طرح سے زک اٹھانی پڑے گی۔

پنجاب کا یہ خدشہ اس وقت اور شدت اختیار کر گیا جب مشرقی پاکستان کے وزیر اعلی نور الامین کی شہہ پر سندھ کے وزیر اعلٰی عبدالستار پیرزادہ نے گورنر جنرل کے وسیع اختیارات کو چیلنج کیا اور انہیں محدود کرنے کے لئے دستور ساز اسمبلی میں ایک آئینی ترمیم منظور کرا لی۔

گورنر جنرل غلام محمد اس پر سخت طیش میں آگئے اور اسی کے ساتھ پنجاب کامفاد پرست طبقہ لرز اٹھا۔ اسے یہ خطرہ لاحق ہوا کہ اگر ملک میں جمہوری ڈھانچے کے تحت مشرقی پاکستان کو آبادی کی بنیاد پر بالا دستی حاصل ہوگئی اور وہ ملک کے دوسرے تین چھوٹے صوبوں کے ساتھ کسی معاملہ پر یک رائے اور متحد ہو جائے تو پنجاب سیاسی طور پر بے بس ہو کر رہ جائے گا-

چنانچہ گورنر جنرل غلام محمد کی شہہ پر پانچ اکتوبر سن چون کو ایک اجلاس میں دستور ساز اسمبلی میں پنجاب مسلم لیگ پارٹی نے تین مطالبات پر مشتمل ایک الٹی میٹم پیش کیا اور کہا کہ اگر اس کے یہ مطالبات تسلیم نہ کیئے گئے تو اٹھائیس اکتوبر کو دستور ساز اسمبلی کے اجلاس سے قبل پارٹی کے تمام اراکین ، اسمبلی سے اجتماعی طور پر مستعفی ہوجائیں گے-

پنجاب مسلم لیگ اسمبلی پارٹی نے جو تین مطالبات پیش کیئے تھے ان میں پہلا مطالبہ تھا کہ آئین میں مرکز کے پاس صرف چار امور ہونے چاہئیں- اول دفاع، دوم امور خارجہ سوم کرنسی اور بیرونی تجارت چہارم صوبائی مواصلات-

دوسرا مطالبہ تھا کہ ان امور کے علاوہ تمام امور صوبوں کو تفویض کرنے کے لیئے تمام صوبوں کے نمائندوں کی کمیٹی فیصلہ کرے۔

تیسرا مطالبہ یہ تھا کہ اگلے پانچ برس تک نئے آئین میں کوئی ترمیم اس وقت تک منظور نہیں ہو سکتی جب تک کہ اس کے حق میں تمام صوبوں کی اسمبلیوں میں تیس فی صد اراکین کی حمایت حاصل نہ ہو-

اس دوران گورنر جنرل غلام محمد کی ایما پر ملک فیروز خان نون زیورخ گئے جہاں عوامی لیگ کے سربراہ حسین شہید سہروردی زیر علاج تھے۔ زیورخ میں نون اور سہرودی کے درمیان سودا طے پایا جس کے تحت سہروردی نے مشرقی پاکستان میں جگتو فرنٹ کی معطل حکومت کی بحالی کے وعدہ کے عوض دستور ساز اسمبلی کو برخاست کرنے پر آمادگی ظاہر کی اور اسی کے ساتھ مغربی پاکستان کے تینوں صوبوں اور چھ نوابی ریاستوں کو ایک یونٹ میں ضم کرنے کی بھی تجویز تسلیم کر لی۔

اسی سودے کے بل پر گورنر جنرل غلام محمد نے دستور ساز اسمبلی توڑ دی-
دستور ساز اسمبلی کی تحلیل سے قبل غلام محمد نے امریکی نواز محمد علی بوگرا کو وزیر اعظم مقرر کیا تھا جنہوں نے اپنی کابینہ میں پہلی بار مسلح افواج کے کمانڈر ان چیف جنرل ایوب خان کو وزیر دفاع مقرر کیا تھا-

اس زمانہ میں محض یہ شبہات تھے کہ پاکستان میں ان تبدیلیوں کے پیچھے امریکہ کا براہ راست ہاتھ تھا لیکن اب جو حقائق اور دستاویزات سامنے آئے ہیں ان کے پیش نظر یہ بات راز نہیں رہی ہے کہ پاکستان کے معاملات میں جو اس زمانہ میں امریکہ کے دو فوجی معاہدوں سیاٹو اور سینٹو کا ممبر تھا، امریکہ بلا واسطہ طور پر مداخلت کر رہا تھا-

اس زمانہ میں پاکستان کی بے کس اور بے اثر کمونسٹ پارٹی پر پابندی عائد کرانے کے لیئے امریکہ کے نائب صدر رچرڈ نکسن بذات خود پاکستان آئے تھے اور ان کے قیام کے دوران پاکستان میں بائیں بازو کے دانشوروں، صحافیوں اور ٹریڈ یونین رہمناؤں اور کارکنوں کی بڑے پیمانہ پر گرفتاریاں عمل میں آئی تھیں۔ یہ پہلا وار تھا ملک میں شہری آزادیوں پر-

اس کے باوجود اس زمانہ کے سیاست دانوں میں کچھ دم باقی تھا، خاص طور پر مشرقی پاکستان کے سیاست دانوں میں جنہوں نے غلام محمد کی جگہ مقرر ہونے والے گورنر جنرل اسکندر مرزا اور ان کے مقرر کردہ وزیر اعظم چودھری محمد علی کو نئی دستور ساز اسمبلی کی تشکیل پر مجبور کیا جو صوبائی اسمبلیوں سے بلواسطہ طور پر منتخب ہوئی تھی-

اس دستور ساز اسمبلی نے سب سے پہلے تو مغربی پاکستان میں تینوں صوبوں اور چھ نوابی ریاستیں ایک یونٹ میں ضم کرنے کا فیصلہ کیا جس کے بعد ملک عملی طور پر دو حصوں میں بٹ گیا جس کے مضمرات آئندہ چل کر ملک کے لیئے مہلک ثابت ہوئے-

اس دستور ساز اسمبلی نے سن انیس سو چھپن میں ملک کا پہلا آئین منظور کیا جو ملک کو سیاسی استحکام بخشنے میں اس بناء پر یکسر ناکام رہا کیونکہ اس کی تمام تر اساس غیر جمہوری تھی- اس آئین کے ذریعہ ایک طرف جبرًا ملک کی سب سے بڑی آبادی والے صوبہ مشرقی پاکستان پر مساوی نمائندگی (پیریٹی) تھوپی گئی اور اسے اکثریت کے تمام حقوق اور استحقاقات سے محروم کر دیا گیا دوسری طرف مغربی پاکستان کے چھوٹے صوبوں کو زبردستی ایک یونٹ میں ضم کردیا گیا-

سن چھپن کے آئین کی منظوری کے بعد سن انسٹھ میں ملک میں عام انتخابات ہونے والے تھے- نئے آئین کے تحت ملک کے پہلے صدر مقرر ہونے والے اسکندر مرزا نے اپنی پارٹی ریپبلکن پارٹی کی فتح کے لیئے بڑے پیمانہ پر جوڑ توڑ شروع کردی تھی اور اسی مقصد سے سب سے پہلے انہوں نے وزیر اعظم چوھری محمد علی کو مستعفی ہونے پر مجبور کیا اور ان کی جگہ عوامی لیگ کےحسین شہید سہرودی کو وزیر اعظم مقرر کیا۔ پھر ایک سال کے بعد سن ستاون میں مسلم لیگ کے آئی آئی چندریگر کو چند ماہ کے لیئے وزیر اعظم بنایا۔ ان کے بعد ملک فیروز خان نون کو وزارت اعظمی پر فائز کیا-

ان تمام تقرریوں اور برطرفیوں کا مقصد عوام پر یہ ثابت کرنا تھا کہ سیاست دان یکسر ناکام ہوگئے ہیں۔

اور پھر سات اکتوبر کو صدر اسکندر مرزا نے آئین منسوخ کر کے مارشل لاء نافذ کردیا۔ چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر جنرل ایوب خان تھے ظاہر ہے ایک نیام میں دو تلواریں نہیں رہ سکتی تھیں- ویسے بھی آئین کی تنسیخ کے بعد صدر کا عہدہ بے معنی ہو گیا تھا- چنانچہ ستائیس اکتوبر کو ایک اور انقلاب آیا اور صدر اسکندر مرزا کو نہ صرف اپنے عہدہ سے ہاتھ دھونا پڑا بلکہ ملک سے جلا وطنی بھی اختیار کرنی پڑی-

یہ ستم ظریفی ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو جنہوں نے ملک کی سیاست کو عوامی انداز بخشا اور جو سن بہتر سے لے کر سن ستتر تک ملک کے مختصر جمہوری دور میں سیاسی تقدیر کے مالک تھے سن اٹھاون کے اسی فوجی دور کی دین تھے جب پاکستانی فوج نے اپنے ملک پر پہلا حملہ کیا تھا-

جنرل ایوب خان کو اپنی کابینہ کے لیئے سندھ کا ایک نمائندہ درکار تھا جو انہیں نہیں مل رہا تھا- اسکندر مرزا نے، جن کی ایرانی نژاد اہلیہ ناہید مرزا، ذوالفقار علی بھٹو کی ایرانی نژاد اہلیہ نصر ت بھٹو کی سہیلی تھیں، ایوب خان کی کابینہ کے لیئے ذوالفقار علی بھٹو کا نام تجویز کیا تھا اور یوں وہ پہلی بار پاکستان کی سیاست میں وارد ہوئے۔

بہرحال سات اکتوبر سن اٹھاون کو اقتدار پر تسلط جمانے کےبعد جنرل ایوب خان گیارہ سال تک حکمران رہے۔ ان کے دور کو ان کے نقیبوں نے ترقی کی دہائی قرار دی لیکن در اصل پاکستان کے اس اوائلی دور میں یہ تباہی کی دہائی تھی جب کہ ملک میں جمہوریت کا ڈھانچہ کھوکھلا ہوگیا- سیاسی جماعتوں کانطام درہم برہم ہوگیا اور سن انیس سو پینسٹھ میں ہندوستان کے ساتھ ایسی بے مقصد اور بے نتیجہ جنگ ہوئی جس نے ملک کو دو لخت کرنے کی راہ ہموا کردی۔

نصف شب کی دستک

لاطینی امریکہ کی فوجی اور شخصی آمریتیں شہریوں سے کس طرح نمٹتی تھیں۔ اسکا پورا پورا اندازہ کرنا میرے لیئے بہت مشکل ہوتا اگر میں سن ستر اور اسّی کے عشرے میں پنپنے والے لاطینی امریکہ اور ریاست ہائے متحدہ امریکہ کے مزاحمتی سینما سے متعارف نہ ہوتا۔

یہ وہ زمانہ تھا جب چِلی سے لے کر وینزویلا تک اور ارجنٹینا سے لے کر نکاراگوا تک سارا جنوبی اور وسطی امریکہ کا براعظم آمریت کے بوٹوں تلے دبا پڑا تھا۔
سانتیاگو سے ماناگوا تک سرکاری ڈیتھ اسکواڈ سادہ کپڑوں میں ہر حکومت مخالف کے سائے کو سونگھتے پھر رہے تھے۔ کسی بھی سویلین کے دروازے پر نصف شب کو ایک دستک ہوتی تھی اور سرکاری باز شکار کو دبوچ کر تاریکی میں غائب ہوجاتے تھے۔ کچھ عرصے بعد شکار کی لاش کسی ویرانے میں یا پھر سڑک کے کنارے پائی جاتی تھی۔اور ایک فون شکار کے گھر پر آتا تھا۔ فلاں جگہ سے اٹھا کر لے جاؤ۔ ہزاروں ایسے تھے جن کے بارے میں آج تک معلوم نہیں ہوسکا کہ انہیں آسمان کھا گیا یا زمین نگل گئی۔

آج جبکہ لاطینی امریکہ کے طول و عرض میں جمہوری نظام بحال ہوچکا ہے۔ سینکڑوں مائیں سال کے کسی بھی دن سانتیاگو، بیونس آئرس، بوگوٹا یا لاپاز کے مرکزی چوکوں پر اپنے غائب بچوں کی تصاویر اور بینرز کے ساتھ نظر آسکتی ہیں۔

مجھے آج ’مِسنگ‘ نامی فلم یاد آرہی ہے جس میں ایک امریکی باپ چِلی میں فوجی آمریت قائم ہونے کے فوراً بعد غائب ہونے والے اپنے صحافی بیٹے کو تلاش کرنے پہنچتا ہے۔امریکی سفارتخانہ اس معاملے سے لاتعلقی ظاہر کرتا ہے۔ فوجی حکومت اسکے اغوا سے لاعلمی کا اظہار کرتی ہے۔ لیکن اسکی لاش سانتیاگو کے مرکزی اسٹیڈیم میں سینکڑوں دیگر لاشوں کے درمیان مل جاتی ہے۔اسکے باوجود امریکی حکومت اس صحافی کی موت کے اسباب کو کلاسیفائیڈ قرار دے کر تحقیقات کا دروازہ بند کردیتی ہے۔

مسنگ کے علاوہ ’انڈر فائر‘ اور ’ریڈز‘ جیسی فلمیں میں نے اس وقت دیکھی تھیں جب جنرل ضیا الحق کی آمریت عروج پر تھی۔اور مجھے یہ سوچ سوچ کر اطمینان رہتا تھا کہ پاکستان میں اب تک جتنی بھی آمریتیں آئی ہیں انہوں نے لوگوں کو جیلوں میں ٹھونسا ہے، کوڑے مارے ہیں اور فوجی عدالتوں کے ذریعے پھانسیاں تک دی ہیں لیکن لاطینی امریکہ کی طرح نصف شب کی دستک اور بندے کو بالکل غائب کردینے اور اسکی زندہ یا مردہ تحویل کی ذمہ داری لینے سے انکار نہیں کیا۔

لیکن جب سے القاعدہ، وزیرستان اور بلوچستان کا شاخسانہ اٹھا ہے۔ مخالفین سے نمٹنے کا لاطینی امریکی آمرانہ کلچر غیر اعلانیہ طور پر نافذ ہوگیا ہے۔ بیسیوں غائب شہری کسی سرکاری ریکارڈ میں نہیں ہیں۔

وزیرستان کا صحافی حیات اللہ خان جن حالات میں غائب اور ہلاک ہوا اس کے بعد جنرل پنوشے کے چلی، جنرل گالتیری کے ارجنٹینا اور جنرل مشرف کے پاکستان میں کس قدر فرق باقی رہ گیا۔

حیات اللہ کی ماں خوش قسمت ہے کہ اس نے اپنا بیٹا مردہ ہی سہی دیکھ تو لیا۔کیا باقی غائب لوگوں کی مائیں بھی اتنی ہی خوش قسمت ثابت ہوں گی۔

جب خلق خدا کے ہاتھوں سے اک حشر بپا ہوجائیگا
جمہور کے رستے زخموں سے اب فال نکالی جائے گی
تب تخت اچھالے جاتے تھے تب تاج گرائے جاتے تھے
اب لش پش وردی اترے گی اب کھال اتاری جاۓ گی

کبھی بادشاہ کبھی بساط سے باہر

شطرنج کھیلنے کے تین مروجہ انداز ہیں یعنی بین الاقوامی، دیسی اور پاکستانی۔ تینوں انداز کی شطرنج میں کم ازکم دو اور زیادہ سے زیادہ بھی دو ہی کھلاڑی بازی کھیل سکتے ہیں۔

بین الاقوامی اور دیسی سٹائل کی شطرنج میں جب کوئی کھلاڑی بازی ہار جاتا ہے تو اس کی جگہ کوئی اور کھلاڑی لے سکتا ہے۔ لیکن پاکستانی شطرنج اس لحاظ سے منفرد ہے کہ ہار جیت سے قطع نظر نہ تو کھلاڑی تبدیل ہوتا ہے اور نہ ہی بازی ختم ہوتی ہے، کیونکہ بساط کے آمنے بھی فوج ہے اور سامنے بھی فوج۔

دیسی یا بین الاقوامی شطرنج کے کسی ٹورنامنٹ میں کوئی بھی اور کہیں کا بھی ماہر بطور ریفری فرائض انجام دے سکتا ہے۔ لیکن پاکستانی سٹائل کی شطرنج کے قواعد کے مطابق ریفری کا امریکی ہونا ضروری ہے۔

لیکن پاکستانی سٹائل کی شطرنج میں کھلاڑی کو آزادی ہے کہ وہ کسی بھی مہرے کو بوقت ِ ضرورت کوئی بھی چال چلوا سکتا ہے۔ ہاتھی کو گھوڑے، پیدل کو وزیر اور بادشاہ کو پیدل کے طور پر ٹیڑھا بھی چلوا سکتا ہے اور سیدھا بھی یا ایک ہی جگہ ساکت بھی رکھ سکتا ہے۔

اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ بین الاقوامی یا دیسی شطرنج کے برعکس جو بتیس مہروں سے کھیلی جاتی ہے پاکستانی شطرنج میں صرف چار مہرے اہم ہیں باقی پیدل ہیں۔

ان چار اہم مہروں کے نام ہیں نوکر شاہ ، جاگیردار، مولوی اور بھٹو خاندان۔
نوکر شاہ کا مہرہ آئین و قانون کے خانے میں بھی بٹھایا جاسکتا ہے۔ جاگیردار کو بھی پیٹ سکتا ہے، مولوی کو بھی گھیر سکتا ہے اور بھٹو خاندان کے گھر میں بھی گھس سکتا ہے۔

جبکہ مولوی نام کے مہرے کو حسبِ ضرورت نوکر شاہ اور بھٹو خاندان پر چیک رکھنے کے لیے حرکت میں لایا جا سکتا ہے۔ اسے کشمیر اور افغانستان کے خانوں میں بھی آگے پیچھے کیا جاسکتا ہے یا پھر بلوچستان اور سرحد کے خانوں میں دیگر مہروں کو مات دینے کے لیے بھی استعمال کیا جاسکتا ہے۔

بھٹو خاندان نامی مہرے کو کھلاڑی زیادہ تر اس وقت حرکت میں لاتاہے جب بادشاہ کو نوکر شاہ، جاگیردار اور مولوی کے گھیرے سے نکالنے کی ضرورت پیش آ جائے۔ کھلاڑی اس طرح کی حریفانہ چال سے بادشاہ کو بچانے کے لیے ناگزیر حالات میں بادشاہ کو اڑھائی گھر تک آگے پیچھے کر کے اس کے خانے میں بھٹو خاندان کو بھی لا سکتا ہے۔

لیکن جیسے ہی باقی مہرے پسپا ہوتے ہیں بادشاہ پھر سے اپنے خانے میں آجاتا ہے اور بھٹو خاندان کے مہرے کو بساط کے کونے پر بٹھا دیا جاتا ہے۔ یوں یہ بازی جاری رہتی ہے۔