Thursday, December 20, 2007


بی بی، جنرل اور شیخ جمہوریت
وہ لڑائي جو قانون و آئين کی حکمرانی کے لیے پاکستان کے وکلاء، عام لوگوں اور سیاسی کارکنوں نے ملک کی سڑکوں پر لڑی تھی اور جب کامیابی اسکے قدم چومنے کو تھی تو بینظیر بھٹو نے جنرل مشرف سے ابوظہبی میں ’مبینہ‘ ملاقات کرکے اس پر مندھانی پھیرنے کی بڑی کوشش کر ڈالی ہے۔
صاف چھپتے بھی نہیں سامنے آتے بھی نہیں نما یہ ملاقات جسکی تردید و تصدیق کے لیے ایک متبرک و معتبر مقام ذرائع محترمہ ایوان صدر کو بھی قرار دے رہی ہیں۔ جیسے کل وہ بی بی سی پر کہہ رہی تھیں ’ملک میں دو پارٹیاں ہیں، پریزیڈنسی اور پیپلز پارٹی۔‘
وہ ’پریزیڈنسی‘ جہاں گذشتہ ربع صدی سے آئين و قانون پر ڈاکے ڈالے جاتے رہے ہیں۔ آئين معطل کیے جاتے رہے، اسمبلیاں اور منتخب حکومتیں ڈسمس کی جاتی رہیں، پاکستانی عوام سے حلفیہ جھوٹ بولے جاتے رہے، پارٹی ہے۔ یہ وہی پریزیڈنسی ہے جہاں فوجی صدر مسند نشین ہے۔ وہ ایوان صدر جسے کل بینظیر بھٹو نے اپنے بھائی کے قتل میں ایک فریق کہا تھا، وہی پریزیڈنسی جہاں وردی والی سرکار ساتھی جنرلوں اور خفیہ ایجنیسوں کے وار لارڈز سے ملکر سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کیخلاف فوجی بغاوت کی مرتکب ہوئی۔
سندہ اور پنجاب سے لیکر بلوچستان کے صحراؤں تک تلور کے شوقین شکاری عرب شیخ حکمران کے ابوظہبی والے قصر میں اس ملاقات کے متعلق یہ نہیں معلوم ہوسکا کہ اس میں جنرل مشرف وردی میں آئے‎ تھے کہ بنا وردی۔
گذشتہ نو مارچ سے ابتک پاکستانی وکلاء، عام لوگوں اور سیاسی کارکنوں کے خون کو سستا پانی سمجھتے ہوئے اس میں ملاقات کی مندھانی پھیری گئي ہے۔ اپنے حالیہ دورہ امریکہ کے دوران میں بشری اعتزاز کہہ رہی تھیں صرف ساہیوال کے وکلاء تین مہینوں سے ایک دن بھی کسی بھی عدالت میں پیش نہیں ہوئے۔
جیسے اشرف قریشی نے کہا ہے:ارض بولان پہمہران پہ خیبر پہکراچی پہ نگوں سار ہوئیزندگی کتنی شرمسار ہوئیپایہ ء تخت پہ قربان ہوئی۔
یہ تمام کے تمام لوگ اسلامی شدت پسند نہیں تھے، نہ جہادی تھے، سیکولر تھے، متوسط طبقوں سے تھے، آئين کی بالادستی کیلیے سڑکوں پر نکلے تھے۔ جسٹس افتخار کی ایک ’نہ‘ نے پاکستان میں جنرل پرویز مشرف اور بینظیر بھٹو کو تاریخ کے ڈسٹ بن میں پھینک دیا ہے غیر متعلقہ بنادیا ہے۔ اب چاہے وہ کتنی ہی بار خود ایک دوسرے کو کیوں نہ صدر اور وزیر اعظم بناتے رہیں سولہ کروڑ پاکستانیوں کا افتخار کوئی اور ہے۔
’تب گھٹا ٹوپ اندھیرے سے کہیںایک کرن ابھری ہےروشنی سولہ کروڑ آنکھوں کیاس کو آنکھوں میں چھپالو لوگوپھر نہ کھو جائے کہیںپھر نہ چھن جائے کہیں۔‘(اشرف قریشی)
مجھے نہیں معلوم کہ اب سارے کے سارے برے یا اچھے کام جمعے کے جمعے کیوں ہونے لگے ہیں۔ اگر نو مارچ پاکستان کی تاریخ میں ’بلیک فرائیڈے‘ تھا تو بیس جولائی ’گڈ فرائیڈے‘ اور اب یہ مبینہ ملاقات بھی جمعے کو ہوئی ہے۔عرب شیخوں اور پاکستانی جنرلوں کا پاکستانی عوام کے مقدر پر کتنا دخل رہا ہے۔
صحراۓ سندہ میں تلور کا شکار کرتے ہوئے شیخوں کی سفارشات پر بینظیر بھٹو کیخلاف عدم اعتماد کی تحریک میں ووٹ نہ ڈالنے کی سفارش سردار غلام محمد مہر کو کروائي گئي تھی، ایک سابق وزیر اعلیٰ کی بیٹی کا بیاہ عرب شیخوں ميں ہونے سے اسکے نیب کو مطلوب ہونے کے باجود وفاقی وزیر بنا دیا گیا، عرب شیخوں کی ضمانتوں پر نواز شریف تمام خاندان اور پسندیدہ خانساماؤں اور باورچی خانوں سمیت جیل سے جدہ پہنچا دیے گئے، علی محمد مہر سندہ کے وزیر اعلی بنوا دیے گئے، جام معشوق عرب شیخ کے خصوصی طیارے میں فرار کروا کے دبئي پہنچا دیےگئے تھے اور اب متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب کے حکمران پاکستان میں جمہوریت اور شفاف اور غیر جانبدارانہ انتخابات کے ناصر و ضامن بنیں گے۔ آپ بینظیر بھٹو کی قیادت میں آنیوالی جمہوریت کو اب ’شیخ جمہوریت‘ کہہ سکتے ہیں۔
عوام جس پر مر مٹے تھے وہ میری لیلاۓ وطن اب ہیروں کے ہار پر بہک گئی ہے۔ وہ لڑکی اب جالب والی لڑکی نہیں رہی جس سے جنرل کرنل کانپ اٹھتے تھے۔ اب وہ سوئس کیس سے ڈری ہوئی ہیں۔
آدھی صدی سے بھی زائد کے پیٹے میں پہنچنے اور اپنے جواں سال پیاروں کے لاشے اپنے ہاتھ سے دفنانے کے بعد سیاست میں سرمايہ کاری کے سبق زرداریوں اور شریف بردران سے خوب سیکھ لیے ہیں۔ اب اسے اعتزاز احسن کی نہیں ذہن و ضمیر کے دکانداروں کی ضرورت ہے۔ ایف آئی اے اور آئی بی کے سابق اور جاضر سروس افسروں کی۔
’لوگ جمہوریت کے لیے قربانی ہر وقت صرف بھٹو خاندان ہی سے کیوں مانگتے ہیں، بھٹو خاندان کتنی قربانیاں دے گا۔‘ میرے ایک جیالے دوست کی دلیل تھی۔ لوگوں نے اقتدار کے لیے کبھی بھٹو خاندان سے اصولوں کی قربانی کا تو نہیں کہا تھا نہ۔
ملک میں جنرل مشرف کا مفاد ہی اب قومی مقاد بن چکا ہے جسکے آگے بینظیر بھٹو کے اصول کیا معنی۔
کیا اب ان ’قومی مفادات‘ اور دوام اقتدار کی جنگ میں بینظیر بھٹو اور فیصل صالح حیات، شیرپاؤ، رائو سکندر، اور جوہدری شجاعت میں اب بھی کوئی سرف والا فرق صاف ظاہر ہے باقی کتنا رہ گیا ہے؟
’اٹھ اوئے بھٹو ستییا ہن تیری پے گئی لوڑ‘ اب نیر علی ڈار جیسے جیالے کتنا بھی کہتے رہیں بیٹی کے ہاتھوں اب سویا ہوا بھٹو نہیں جاگتا۔
یہ مبینہ ملاقات بہانہ ہے، اور بقول بینظیر، رابطوں کا سلسلہ پرانا ہے کے باوجود اگر واقعی وہ بغیر کسی جنرل رفاقت کی رفاقت کے آئندہ انتخابات میں بھاری اکثریت سے کامیاب ہوکر تیسری بار وزیر اعظم بن کر بمع مشرف باوردی یا بے وردی صدر کے آتی ہیں تو کیا پاکستان کے عوام سب ڈیل ویل بھول جائیں گے۔ پاکستان کے عوام سادہ لوح ضرور ہے لیکن اتنے بھولے بھی نہیں ہیں۔ عوام کی خواہشیں اگر ووٹ میں بدل جاتیں تو پھر بقول میرے دوست کے، اس بار ایک چوہدری صدر اور دوسرا وزیر اعظم ہوتا۔
رہی میثاق جمہوریت سے رو گردانی تو پاکستانی میوزیکل چئير کی دوڑ میں میثاق تو کیا بینظیر اور نواز شریف جیسے دونوں فریقوں میں سے کوئی بھی جمہوریت کی پیٹھ میں چھرا گھونپ سکتا ہے۔ بساط وقت پر رکھی ہوئی بازی میں کون یا کس کی بولی پہلے لگتی ہے۔
گھاٹے کے اس سودے میں کم از کم عوام کسی بھی صورت میں فریق نہیں۔ پیپلز پارٹی اور پریزیڈنسی پارٹیاں ہیں۔

No comments: