Monday, December 31, 2007

سولہ دسمبر

جو گدھ نے آنکھیں چبائيں
نین وہ نذرل کے تھے
ٹیگور کی کوتاؤں جیسی لڑکیاں
جنکے سینے چاک تم نے یوں کیے سنگینوں سے
قرآن نیزے پر اٹھے


چھوٹی چھوٹی بچیاں الہام جیسی بچیاں
مائيں بنیں
غازیوں کی داشتائيں نہ بنیں


تم بضد ہو
بیس لاکھ ہرگز نہیں تھے
انڈین سازش تھی وہ
ہم نے مارے تھے فقط دو ایک لاکھ


سب کے سب غدار تھے عیار تھے مکار تھے
گندے انڈے تھے ہماری ٹوکرئ پاک میں
بہہ گئے خاشاک میں
برہمپترا، میگھنا، کرنافلی
خون سے سب ندیاں ہم نے بھری
ایمان کی طاقت سی تھیں


ہندؤں جیسے وہ تھے
کالے کلوٹے ڈیڑھ فُٹے سالے
بنگالی بہن۔۔۔۔۔


انکی نہ تھی ہم کو ضروت اسقدر
اللہ اکبر الشمس اور البدر
اللہ اکبر

ہم کو زمیں چاہیے تھی بس
شیر سندر بن کے وہ کہتے تھے خود کو
ہوں۔۔۔۔!

شیر تھا جنرل نیازی
اپنا جو ٹکا خان تھا
بس ایک ہی مسلمان تھا


سامنے تھی رانگا ماٹی اور مکتی باہنی
مجیب، تاج الدین احمد، قادر صدیقی ٹائيگر
اور پروفیسر مظفر
ایک سے بس ایک وہ غدار تھا
اپنا بھی ذوالفقار تھا


’خدا کا شکر پاکستان دیکھو بچ گیا‘
گندی انگلی کاٹ ڈالی ہم نے اپنے ہاتھ سے
اور اسی کے ساتھ سے
معصوم نبیوں جیسا جسکا نام
آغا جنرل محمد یحی خان تھا
تو نشان عزم عالیشان تھا
یہ بھی کیا انسان تھا
اسکو بس رائل سلیوٹ


سولہ دسمبر پھر سجائی ہے اسی دیوار پر
ہم نے کیلینڈر پر
ایمرجنسی اٹھانے کیلیے
کیا ہوا نیازی نہیں غازی نہیں
ہم میں ابھی

گدھ بیٹھی ہے منڈیروں پر وہی
کس کی آنکھیں یہ چباتی ہے ابھی
’اے نوائے گلفروش اے نوائے گلفروش‘
کس کے اب پستان کاٹیں گے ہمارے سرفروش
تو بتا! سولہ دسمبر تو بتا!


پھر فتح کا جام یہ روشن کریں گے
کس کے خون و خاک کا
نام پھر روشن کریں گے
سرزمین پاک کا

No comments: