Friday, December 28, 2007

میں جہاں بھی گیا اے عرض وطن
تیری تذلیل کے داغوں کی جلن
اپنوں کی بے وفاءیوں کی کڑھن
غیروں کے نیزوں کی چبھن

تیرے سپاہیوں کے ہاتھوں پہ
تیرے بیٹوں کا لہو
تیری بیٹیوں کی عزتوں کے تار
تیرے محافظوں کے گلوں کے ہار
تو ہی قاتل ، تو ہی منصف
تو ہی دشمن ، توہی دوست
سارے عالم میں تیری تباہی کے قصے
تیری بربادی میں "اپنوں کے حصے"
تیری گلیوں میں
اب "مظلوم"رہتے ہیں
ظلم کرتے تھے
ظلم سہتے ہیں
بےحس تھے
بے بس ہیں
نہ کوءی تمنا، نہ حرف دعا
نہ رسم الفت، نہ عہد وفا
اب کون تیرے لیءے جیتا ہے؟
اب تیرے نام پہ کون مرتا ہے؟
اب توگھر لوٹنے سے ڈر لگتا ہے
اب توگھر لوٹنے سے ڈر لگتا ہے

No comments: