Friday, December 28, 2007

ایکٹو یا ریڈیو ایکٹو لوگ

تین روز قبل جب میں ملتان سے ڈیرہ غازی خان پہنچا تو چند ہی گھنٹے بعد ایک ایسی وی آئی پی شخصیت میں تبدیل کردیا گیا جس کی حفاظت پر ایک ایس ایچ او، سپیشل برانچ کے کچھ سادہ کپڑے والے اور کاؤنٹر انٹیلی جینس کے ایک دو دوست مامور کردئیےگئے۔

ان سب کو میری حفاظت اتنی عزیز تھی کہ انہوں نے ہوٹل میں میرے کمرے کے سامنے والا کمرہ لے لیا۔ پولیس کی ایک گاڑی ہوٹل کے باہر کھڑی رہی اور ایک صاحب مستقل ریسیپشن پر بیٹھے رہے۔

یہ سب نہایت خوش اخلاقی سے پیش آئے اور بار بار اس طرح کے جملے کانوں میں رس گھولتے رہے کہ سر کہیں یہ نہ سمجھئے گا کہ ہم آپ کی نگرانی کررہے ہیں۔ آپ جہاں چاہیں جا سکتے ہیں۔ بس ہمیں چھوٹا بھائی سمجھ کر اپنے پروگرام کے بارے میں بتادیں۔آپ جس سے چاہیں ملیں ہم آپ کی حفاظت کریں گے۔ آپ ہمارے مہمان ہیں۔اچھا تو سر آپ کا موبائل نمبر کیا ہے۔ کیا آپ پہلے بھی ڈیرہ غازی خان تشریف لاتے رہے ہیں۔ اس دفعہ کب تک قیام فرمائیں گے۔ یہاں سے اگلا پروگرام کیا ہے سر۔ کیا آپ کو اس بارے میں کوئی اطلاع ہے کہ عاصمہ جہانگیر بھی یہاں پہنچ رہی ہیں۔ کیا آپ کی ان سے آنے سے پہلے یا پھر اب ملاقات کا کوئی پروگرام ہے۔ کیا آپ یہاں ایٹمی فضلے کی ڈمپنگ کے کیس پر بات کرنے آئے ہیں۔ مائنڈ نہیں کیجئے گا سر یہ ہم صرف اور صرف اپنی ذاتی معلومات کے لیئے پوچھ رہے ہیں۔ ہم بی بی سی بڑے شوق سے سنتے ہیں۔

جس ہوٹل میں اڑتالیس گھنٹے میرا قیام رہا اس کا مینجر اتنی ٹینشن میں آ گیا کہ اس نےپوچھ ہی لیا کہ سر کمرے کا کرایہ تو مل جائے گا نا؟

سچی بات تو یہ ہے کہ اس مرتبہ میں ڈیرہ غازی خان محض پرانے دوستوں سے ملنے گیا تھا۔

میرا سٹوری ڈھونڈنے کا کوئی ارادہ نہیں تھا لیکن یہ کہانی خود چل کر میرے سامنے آگئی کہ حکومت اور ایجنسیاں یورنیم کی کانکنی کے علاقے بغلچور میں مناسب حفاظتی تدابیر اختیار اور مقامی لوگوں کو اعتماد میں لئے بغیر ایٹمی فضلے کو اس علاقے میں دفن کرنے کے معاملے پر پارلیمنٹ، سپریم کورٹ اورذرائع ابلاغ میں مچنے والے شور سے کس قدر پریشان ہے۔

حکومت نے فی الحال اسکا یہ حل نکالا ہے کہ وہ علاقے میں ریڈیو اکٹوٹی یعنی تابکاری اثرات کی سائنسی چھان بین، متاثرہ آبادی کے جسمانی اور طبی تحفظ کی فکر کرنے کے بجائے علاقے کی ناکہ بندی کردے اور اس معاملے کو حساس نوعیت اور قومی سلامتی کے قالین تلے چھپادے۔

مسئلہ ایٹمی فضلے کو ٹھکانے لگانے کا نہیں بلکہ محفوظ طریقے سے ٹھکانے لگانے کا ہے تاکہ علاقے کی زمین، ہوا اور پانی آلودہ نہ ہو اور علاقے کے لوگ اسکے نتیجے میں پھیلنے والے ممکنہ سرطان اور جیناتی خرابیوں کا شکار نہ ہوں لیکن حکومت کا خیال ہے کہ یہ مسئلہ اٹھانا دراصل قومی ایٹمی پروگرام کو نقصان پہنچانے کی بین الاقوامی سازش کا حصہ ہے۔

اگر حکومت ان سب باتوں کو بے بنیاد پروپیگنڈہ سمجھتی ہے تو پھر بغلچور اور رونگھن کے علاقے کی ناکہ بندی کی کیا ضرورت ہے جبکہ وہاں مدت سے یورنیم کی کانکنی بھی نہیں ہورہی۔

ڈیرہ غازی خان کے ایک مقامی دانشور کے بقول جب لوگ اپنے حقوق کے لیئے ایکٹو نہیں ہوں گے تو پھر ریڈیو ایکٹو ہوں گے۔

No comments: