Monday, December 31, 2007

مسٹر بھٹو زرداری

یہ ایک بلکل نئی کوریو گرافی ہے۔ سندھی اجرک اور ٹوپیوں میں بینظیر کی قبر پر رات کے اندھیرے میں پھولوں کی چادر چڑھاتی ہوئی پاک فوج اور دن دہاڑے پی پی پی کے نئے چیئر پرسن آصف علی زرداری۔

اے میرے وطن کے سجیلے جنریلو! تم قتل کرتے ہو کہ کرامات کرتے ہو! دیکھتی آنکھوں اور سنتے کانوں ! ماتم کدہ پاکستان میں لاشوں کے نیلام گھر کے نئے طارق عزیز اینڈ کمپنی کا سلام پہنچے۔


اس کی بلٹ پروف گاڑی کی ڈرائیونگ سیٹ پر خالد شہنشاہ، اس کے ساتھ والی سیٹ پر سیکیورٹی انچارج میجر (ریٹائرڈ) امتیاز، پچھلی سیٹ پر مخدوم امین فہیم، ناہید خان اور بینظیر بھٹو جو اب گاڑی کی سیٹ پر خون سے بھرا تالاب، چار قلوں والی ہری چادر، ایک جوتے، اور پاکستان کے کروڑ ہا ورثاء کے باوجود بغیر پوسٹ مارٹم کروائی ہوئی ایک مقتولہ سندھی عورت وزیر اعظم جو سی ون تھرٹی میں چکلالہ ائیرپورٹ سےگڑھی خدا بخش میں دفنا دی گئیں۔

سندھ کی ناخوش وادی کے الم نصیبو جگر فگارو! پنجاب کے وہ پروانے بھی یاد رکھنا جو سندھ کی اس بیٹی پر مر مٹے۔ جنہوں نے خود کش بمار کو نہتے ہاتھوں سے پکڑنے کی کوشش کی۔ بہرے کانوں پر جیالوں کے نعرے ان سنے رہے ’ملک کی مجبوری ہے صنم بھٹو ضروری ہے‘ (اور صنم بھٹو کی اپنی مجبوری تھی)۔



اگست انیس سو نوے میں پرائیم منسٹر ہاؤس سے معزول ہوتی وزیر اعظم کے سامان کے ٹرکوں میں آصف علی زرداری کے گھوڑے اور بلاول کا جھولا بھی ساتھ آئے تھے۔ اب آصف کا تو پتہ نہیں لیکن بلاول بڑا ہوگیا ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی اور انڈین نیشنل کانگرس میں مماثلت ڈونڈھنا عبث ہے کیونکہ نہرو کی پارٹی فیروز گاندھی کو نہ جہیز میں ملی تھی نہ وصیت میں!


کل نیویارک میں پی پی پی کے ایک پرانے کارکن کہہ رہے تھے، ’مگرمچھ کے منہ میں اس وقت بازو نہیں دیا جاتا جب اس کی آنکھ میں انسو ہوں۔‘

No comments: