Friday, December 28, 2007

جب مشرف کو دھکا دیا گیا۔۔۔

سات سال پہلے آج کے دن کراچی کے بین الاقوامی ہوائی اڈے پر ہم سے چند سوگز کے فاصلے پر، اس ملک کی تقدیر کا فیصلہ ہو رہا تھا، ہم سب اس سے بے خبر تھے۔ ہم تو وہاں ایک برطرف چیف آف آرمی اسٹاف کا انٹرویو لینے کی کوشش کرنے گئے تھے۔

دن میں وزیراعظم نواز شریف نے چیف آف آرمی اسٹاف جنرل پرویز مشرف کو برطرف کردیا تھا اور جنرل ضیاالدین بٹ کو نیا فوجی سربراہ مقرر کیا تھا۔ نواز شریف کو اپنی قوت کا اندازہ تھا نہ فوج کی قوت کا۔ ان کا حکم کاغذ کا ایک بے کار پرزہ ثابت ہوا۔

جنرل پرویز مشرف کو سری لنکا سے واپسی کے دوران ہوائی جہاز میں اپنی برطرفی کا علم ہوا تھا۔ وہ فضا میں تھے مگر ان کی حامی فوج زمین پر اور
فوج نے وزیراعظم نواز شریف کا حکم ماننے سے انکار کردیا تھا۔ جنرل مشرف کا طیارہ کراچی ہوائی اڈے پر اترنے سے پہلے ہی فوج نے ان کی سربراہی میں منتخب وزیراعظم کو برطرف اور اقتدار پر قبضہ کرلیا تھا۔

مگر ہم جب کراچی کے ہوائی اڈے پر تھے تو ہمیں ان سب باتوں کا علم نہیں تھا۔ پاکستانی عوام کو کچھ بھی پتہ نہیں تھا، انہیں اپنی تقدیر کے بارے میں فیصلوں کا کم ہی پتہ ہوتا ہے، اگر ہوتا بھی ہے تو۔

کئی ستاروں والی ایک فوجی کار پر جھنڈا کبھی اتارا جاتا کبھی لگایا جاتا، کیا ہورہا ہے کسی کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا۔ کیا ہوا ہے، چند گھنٹوں بعد تھوڑا بہت پتہ چلا اور تفصیل سے اس وقت جب نواز شریف پر خود ان کی بنائی ہوئی انسداد دہشت گردی کی عدالت میں مقدمہ چلا۔

تھوڑی دیر بعد یہ معلوم ہوا تھا کہ فوج نے اقتدار پر قبضہ کرلیا ہے اور وزیراعظم کو گرفتار کرلیا گیا ہے۔

بہت دن بعد جنرل مشرف کے جہاز اور کراچی ایئر کنٹرول ٹاور کے درمیان گفتگو کی ریکارڈنگ سننے کو ملی تو اندازہ ہوا کہ ہم سے تھوڑی سی دور یہ ساری کارروائی ہورہی تھی اور ہمیں کچھ پتہ نہیں تھا۔ جنرل مشرف کا جہاز کب اترا، وہ کہاں سے کراچی کے کسی محفوظ علاقے میں چلے گئے ہم جہاں کھڑے تھے پتہ نہیں چل سکا۔ ہم تو انتظار کرکے واپس آگئے تھے مزید خبروں کی تلاش میں۔

اسلام آباد میں بی بی سی کے نمائندہ ظفر عباس کراچی میں تھے، انہوں نے، اور میں نے یہ ساری رات دفتر میں گذاری۔ رات تین بجے جنرل مشرف کی وہ تقریر سنی جس میں انہوں نے کہا تھا کہ ان کا اقتدار پر قبضہ کرنے کا کوئی ارادہ نہیں تھا اور یہ کہ انہیں معلوم نہیں کہ انہیں کس نے دھکا دیا۔

جنرل مشرف نے جو بظاہر ایک وزیراعظم کے ناسمجھ میں آنے والے فیصلے کے نتیجے میں برسر اقتدار آئے تھے، اقتدار پر اس طرح قبضہ کیا کہ دونوں سابق وزرائے اعظم نہ صرف انتخابات میں حصہ لینے کے نااہل قرار دیے گئے بلکہ ایک کو دس سال کے لئے ملک بدر ہونا پڑا اور دوسری نے از خود جلاوطنی اختیار کرلی۔

خود جنرل مشرف کو اعلی ترین عدالت نے ماضی کی روایات کے عین مطابق نظریہ ضرورت کے تحت حکومت کرنے اور آئین میں ترامیم کرنے کا اختیار دیا۔ انہوں نے آئین میں ایسی اور اتنی ترامیم کردیں کہ جانی ہوئی صورت بھی پہچانی نہیں جاتی۔ لیگل فریم ورک آرڈر کے ذریعے اور بعد میں ایک قانونی ترمیم کرکے دونوں عہدے یعنی صدر اور چیف آف آرمی اسٹاف کا عہدہ اپنے پاس رکھا اور آئندہ بھی وہ صدارتی انتخاب لڑینگے اور غالب امکان یہی ہے کہ بری فوج کے سربراہ بھی رہینگے۔

ہم جب کراچی کے ہوائی اڈے پر سات سال پہلے، آج کے دن برطرف چیف آف آرمی اسٹاف کا انٹرویو لینے گئے تھے تو ہمیں اندازہ نہیں تھا کہ ہم سے کچھ ہی دور اس ملک کی تقدیر بدل رہی، بگڑ رہی یا بن رہی اس کا فیصلہ تاریخ کرےگی۔

No comments: