Friday, December 28, 2007

کبھی بادشاہ کبھی بساط سے باہر

شطرنج کھیلنے کے تین مروجہ انداز ہیں یعنی بین الاقوامی، دیسی اور پاکستانی۔ تینوں انداز کی شطرنج میں کم ازکم دو اور زیادہ سے زیادہ بھی دو ہی کھلاڑی بازی کھیل سکتے ہیں۔

بین الاقوامی اور دیسی سٹائل کی شطرنج میں جب کوئی کھلاڑی بازی ہار جاتا ہے تو اس کی جگہ کوئی اور کھلاڑی لے سکتا ہے۔ لیکن پاکستانی شطرنج اس لحاظ سے منفرد ہے کہ ہار جیت سے قطع نظر نہ تو کھلاڑی تبدیل ہوتا ہے اور نہ ہی بازی ختم ہوتی ہے، کیونکہ بساط کے آمنے بھی فوج ہے اور سامنے بھی فوج۔

دیسی یا بین الاقوامی شطرنج کے کسی ٹورنامنٹ میں کوئی بھی اور کہیں کا بھی ماہر بطور ریفری فرائض انجام دے سکتا ہے۔ لیکن پاکستانی سٹائل کی شطرنج کے قواعد کے مطابق ریفری کا امریکی ہونا ضروری ہے۔

لیکن پاکستانی سٹائل کی شطرنج میں کھلاڑی کو آزادی ہے کہ وہ کسی بھی مہرے کو بوقت ِ ضرورت کوئی بھی چال چلوا سکتا ہے۔ ہاتھی کو گھوڑے، پیدل کو وزیر اور بادشاہ کو پیدل کے طور پر ٹیڑھا بھی چلوا سکتا ہے اور سیدھا بھی یا ایک ہی جگہ ساکت بھی رکھ سکتا ہے۔

اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ بین الاقوامی یا دیسی شطرنج کے برعکس جو بتیس مہروں سے کھیلی جاتی ہے پاکستانی شطرنج میں صرف چار مہرے اہم ہیں باقی پیدل ہیں۔

ان چار اہم مہروں کے نام ہیں نوکر شاہ ، جاگیردار، مولوی اور بھٹو خاندان۔
نوکر شاہ کا مہرہ آئین و قانون کے خانے میں بھی بٹھایا جاسکتا ہے۔ جاگیردار کو بھی پیٹ سکتا ہے، مولوی کو بھی گھیر سکتا ہے اور بھٹو خاندان کے گھر میں بھی گھس سکتا ہے۔

جبکہ مولوی نام کے مہرے کو حسبِ ضرورت نوکر شاہ اور بھٹو خاندان پر چیک رکھنے کے لیے حرکت میں لایا جا سکتا ہے۔ اسے کشمیر اور افغانستان کے خانوں میں بھی آگے پیچھے کیا جاسکتا ہے یا پھر بلوچستان اور سرحد کے خانوں میں دیگر مہروں کو مات دینے کے لیے بھی استعمال کیا جاسکتا ہے۔

بھٹو خاندان نامی مہرے کو کھلاڑی زیادہ تر اس وقت حرکت میں لاتاہے جب بادشاہ کو نوکر شاہ، جاگیردار اور مولوی کے گھیرے سے نکالنے کی ضرورت پیش آ جائے۔ کھلاڑی اس طرح کی حریفانہ چال سے بادشاہ کو بچانے کے لیے ناگزیر حالات میں بادشاہ کو اڑھائی گھر تک آگے پیچھے کر کے اس کے خانے میں بھٹو خاندان کو بھی لا سکتا ہے۔

لیکن جیسے ہی باقی مہرے پسپا ہوتے ہیں بادشاہ پھر سے اپنے خانے میں آجاتا ہے اور بھٹو خاندان کے مہرے کو بساط کے کونے پر بٹھا دیا جاتا ہے۔ یوں یہ بازی جاری رہتی ہے۔

No comments: