Friday, December 28, 2007

لیاقت باغ میں کون مرا؟

آج راولپنڈی کی مشہور جلسہ گاہ لیاقت باغ کے باہر ہونے والے بم دھماکے میں کون مرا؟ ہر طرف صرف اور صرف بینظیر بھٹو کا نام لیا جا رہا ہے۔ لیکن وہاں تو اور بھی بہت کچھ تھا۔

ملک کی سب سے بڑی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی بھی تو وہیں تھی۔ پاکستان بھر میں کئی ہفتوں سے جاری انتخابی عمل بھی تو وہیں کہیں پھر رہا تھا۔ آخری خبریں آنے تک اسی جلسہ گاہ میں وفاق کی سیاست بھی دیکھی گئی۔ کوئی کہتا ہے کہ جمہوریت بھی اسی کے ہاتھ میں ہاتھ ڈالے کھڑی تھی۔ اور ان لاکھوں بے نام خواہشوں کا تو ذکر ہی کیا جو لیاقت باغ سے دور ہوتے ہوئے بھی وہیں کہیں گھومتی دیکھی گئیں۔ ان سب کا کیا بنا؟

راولپنڈی اسلام آباد میں سناٹا ہے۔ کہیں کہیں کوئی بچا کھچا ٹائر شاید ابھی تک سلگ رہا ہو لیکن جدھر دیکھو ہو کا عالم نظر آتا ہے۔ کوئی نہیں جو بتائے کہ پاکستان پیپلز پارٹی، انتخابی عمل، وفاق کی سیاست، جمہوریت اور عوامی امنگیں کس حال میں ہیں۔

پاکستان پیپلز پارٹی نے تو شاید بینظیر بھٹو کے ساتھ ہی دم توڑ دیا ہو۔ بیچاری میں جان ہی کتنی تھی؟ گیارہ سال تو جنرل ضیاالحق کے ہاتھوں پٹی۔ پھر اپریل انیس سو چھیاسی میں جب بینظیر بھٹو واپس آئیں تو خیر خواہوں نے ان کی منتیں کیں، ان کے آگے ہاتھ جوڑے کہ کچھ اور کرنے سے پہلے اپنی پارٹی کو سنبھالو۔ پارٹی الیکشن کراؤ اور اسے ایک منتخب اور فعال قیادت دو۔

لیکن بتیس سالہ بینظیر بھٹو کچھ اور ہی دھن میں تھیں۔ انہیں اتنے کام جو کرنے تھے۔ وزیر اعظم بننا تھا، اپنے باپ کے عدالتی قتل کا بدلہ لینا تھا اور حکومت میں آ کر وہ تمام کالے قوانین ختم کرنے تھے جو فوجی حکمرانوں نے اپنی سیاست کی خاطر بھوکے کتوں کی طرح ملکی سیاست پر چھوڑ رکھے تھے۔

جب بینظیر بھٹو اس کے پاس ہوتیں تو پارٹی پیار کی شادی کرنے والی ایک نو بیاہتا دلہن کی طرح چہکتی۔ اور جب ان کو جلاوطن ہونا پڑتا تو وہ بنارس کی بیواؤں کی طرح پھیکی پڑ جاتی۔ شاید یہی وجہ تھی کہ بینظیر بھٹو دو بار وزیر اعظم بننے کے باوجود بھی نا تو اپنے باپ کے قتل کا بدلہ لے سکیں اور نہ ہی ان کالے قوانین کو ختم کر سکی جو اپنی کوکھ میں انتہا پسندی کا عفریت پال رہے تھے۔

اب ایسی لاچار پارٹی اتنے بڑے دھماکے میں کہاں بچی ہو گی؟ اور اگر بچ بھی گئی ہو تو اپنی روح یعنی بینظیر بھٹو کے بغیر اور کتنا جی لے گی؟

ایسا ہی کچھ حال شاید ملک بھر میں جاری اس لولے لنگڑے انتخابی عمل کا بھی ہو جسے ہر روز اگر ایک طرف سے پذیرائی ملتی تو دوسری جانب سے دھتکار۔ ویسے ہی پہلے دن سے ہی بیچارہ ضلعی حکومتوں کے نرغے میں تھا جو اسے ہر روز درندوں کی طرح نوچتی تھیں۔ اب سننے میں آ رہا ہے کہ اس وقت وہ صدارتی محل میں پڑا کراہ رہا ہے۔ کیا پتا شاید جانبر ہو ہی جائے۔ اور اگر مر بھی گیا تو کیا؟ وقت آنے پر پھر کوئی باوردی مسیحا اس میں روح پھونک دے گا۔ فی الحال اس کی فکر کرنا محض وقت کا ضیاع ہو گا۔

شاید زیادہ فکر وفاق کی سیاست کی کرنی چاہیئے۔ اس کے تو زیادہ دوست یار بھی نہ تھے جو برے وقت میں اس کی مدد کو لپکتے۔ مسلم لیگ قاف کے رہنما تو ابھی تک پنجاب تک ہی محدود تھے۔ انہیں نہ تو سندھ کی فکر تھی نہ بلوچستان اور نہ ہی سرحد کی۔ متحدہ قومی موومنٹ اور فنکشنل لیگ جیسی جماعتیں سندھ تک محدود تھیں جبکہ متحدہ مجلس عمل اور عوامی نیشنل پارٹی صوبہ سرحد کی سرحدوں میں بند۔ ایک بینظیر بھٹو ہی تو تھیں جنہیں پاکستان میں وفاق کی علامت کہا جاتا تھا۔

رہی بات جمہوریت کی تو اس کے ہونے یا نہ ہونے کی کسے پرواہ؟ یہ پاکستان ہے، انتہا پسندوں کی سر زمین جہاں سیاسی مخالفین کو ملک دشمن کہا جاتا ہے اور قانون کی حکمرانی کی بات کرنے والوں کو ملکی سالمیت کے لیے زہر قاتل۔ راولپنڈی میں ہونے والے دھماکے سے بہت پہلے ہی جمہوریت کی شکل اس قدر مسخ ہو چکی تھی کہ اگر وہ اس دھماکے میں بچ بھی گئی ہو تو اسے پہچانے گا کون؟

ابھی ابھی کسی نے کہا کہ رات کے پچھلے پہر سردی اس قدر بڑھ گئی ہے کہ بینظیر بھٹو کے قتل پر احتجاج کرنے والے بھی گھروں کو لوٹ چکے ہیں۔ اب ایسے ماحول میں ان لاکھوں عوامی امنگوں کا کیا ذکر جو بینظیر بھٹو کے ساتھ ہی جلسہ گاہ میں گھوم پھر رہی تھیں۔

پھر بھی خیال تو آتا ہی ہے۔ کوئی ان سب کا پتا تو کرے کہ ان کا ہوا کیا؟ پیپلز پارٹی، جمہوریت، وفاق کی سیاست، ان سب کا کیا ہوا؟ کوئی بچا بھی یا۔۔۔

No comments: