Friday, December 28, 2007

وردی برقعہ ہوچکی

بہت ہی ضیعف بزرگوں کے پاس اگر آپ بیٹھیں تو کبھی کبھار وہ یہ ضرور بتائیں گے کہ انگریز کے زمانے میں وردی کا اتنا دبدبہ تھا کہ اگر ایک معمولی پولیس والا کسی گاؤں میں ملزم کی تلاش میں داخل ہوجاتا تو سب کی گھگی بندھ جاتی تھی اور پولیس والا مطلوبہ ملزم کو ہتھکڑی نہیں لگاتا تھا بلکہ اسی کے صافے سے ہاتھ پیچھے باندھ کر کوتوالی تک پیدل لے جاتا تھا۔

اگر آپ کسی پچپن ساٹھ برس کے شخص کو ذرا سا بھی کریدیں تو وہ آپ کو ضرور بتائے گا کہ کس طرح جب پہلا ملک گیر مارشل لاء لگا تھا تو سیاسی کارکن روپوش ہوگئے تھے۔ بستہ الف کے بدمعاش بالکل الف ہوگئے تھے۔ دوکانداروں نے مارے ڈر کے قیمتیں کم کردی تھی۔ ذخیرہ اندوز اپنے گوداموں کی تفصیل لے کر خود باوردی مارشل لاء حکام کے سامنے حاضر ہوجاتے تھے۔ لوگوں نے راتوں رات غیر قانونی ہتھیار گلیوں اور میدانوں میں پھینک دیے تھے اور جرمانے کے خوف سے گلیاں اور محلے خود بخود صاف ہونے لگے تھے۔ مبادا فوجی افسران کوئی سزا نہ دے دیں۔

لیکن جیسے جیسے وردی عام آدمی کو کبھی کبھار کی بجائے ہر وقت نظر آنے لگی وردی کا دبدبہ بھی جھاگ ہونے لگا۔ صرف دس برس کے اندر بات یہاں تک پہنچ گئی کہ ڈھاکے کا ایک عام سا بنگالی رکشہ ڈرائیور بھی چھ فٹ کے وردی والے کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر سامنے سے گزرنے لگا۔

وقت نے یہ بھی دکھا دیا کہ جو سیاسی کارکن ایوب خان اور یحیی خان کے مارشل لاء ادوار میں وردی کی دہشت سے دبک کر بیٹھ گئے تھے اور بہت سوں نے معافی نامے بھی لکھ کر دیے تھے۔ انہی کی اولادوں نے جنرل ضیا کے ننگے مارشل لاء کے دوران پیٹھ پر کوڑے کھا کر اور گلے میں پھندا ڈال کر وردی کے دبدبے کو سوالیہ نشان بنا دیا۔

شاید اسی سے حوصلہ پا کر دس برس بعد آسمان نے یہ منظر بھی دیکھا کہ پنجاب جیسے وفادار صوبے کے لاکھوں مزارعوں نے ملٹری فارمز کی انتظامیہ کی جانب سے خود کو بے دخل کرنے کی کوششوں کی اس طرح مزاحمت کی کہ باوردی حکام حیران و پریشان رہ گئے۔

دبدبہ فاصلے سے پیدا ہوتا ہے اور جب من و تو کی تمیز ہی ختم ہوجائے تو پھر کیسا دبدبہ، کونسا ڈر اور کہاں کا وقار۔

زندگی کے ہر شعبے میں مداخلت اور مفادات میں حصہ داری کی شدید خواہش نے وردی کی حرمت کو جس طرح ضرب لگائی ہے۔اس کے نتیجے میں نوبت یہ آگئی ہے کہ ایک سرکاری مسجد کے مولوی سے لے کر بلوچستان کے مفلوک الحال قبائلی تک، مصلحت پسند تاجر سے لے کر کسی بھی سیاسی جماعت کے کنگلے کارکن تک ایک سڑک چھاپ دانشور سے لے کر ایک لاغر سے صحافی تک ہر ایرا غیرا وردی والوں کے منہ کو آرہا ہے۔

ایسے میں صدرِ مملکت کی یہ ضد بہت عجیب سی لگتی ہے کہ وردی ہی ان کی طاقت کا سرچشمہ ہے۔

کیا اب بھی یہ حقیقت تسلیم کرنے کا وقت نہیں آیا کہ وردی اور دبدبہ ماضی کی کہانی ہوچکی۔ اب تو یہ فکر کرنی چاہیے کہ وردی اور برقعے میں جو فرق رہ گیا ہے کہیں وہ بھی نہ مٹ جائے۔

No comments: