پاکستان کی انسٹھ سالہ تاریخ میں ملک اور اس کا جمہوری نظام فوجی طالع آزماؤں کی اتنی زیادہ یلغاروں کے گرداب میں گرفتار رہا ہے کہ لوگوں کے ذہنوں سے یہ بات معدوم ہوتی جارہی ہے کہ پہلی یلغار کب آئی تھی اور اس کے عوامل اور اسباب کیا تھے اور اس کے نتائج کے سائے کتنے گہرے، لمبے اور مہلک تھے۔
تاریخ سات تھی لیکن مہینہ یہی اکتوبر کا تھا جو پاکستان کی تقدیر میں سیاسی رہنماؤں کے قتل، سیاسی اتھل پتھل، انقلابات اور قدرتی آفات سے عبارت ہے۔
قیام پاکستان کے تین مہینہ بعد ہی کشمیر پر قبائلیوں کی چڑھائی کے نتیجہ میں ستائیس اکتوبر کو کشمیر میں ہندوستانی فوج کی آمد نے پورے برصغیر کی تقدیر ہی الٹ کر رکھ دی اور جنگوں، فوجی معرکہ آرائیوں اور کشیدگیوں کا دائمی سلسلہ شروع ہوگیا۔
پھر ملک کے پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان اسی مہینہ میں قتل ہوئے۔ یہ راز ابھی تک نہیں کھل سکا ہے کہ اس قتل کے پیچھے کس کا ہاتھ تھا؟ وہ خود اپنے ناراض ساتھیوں کی عداوت کا نشانہ بنے یا کوئی غیر ملکی طاقت انہیں راہ سے ہٹانا چاہتی تھی؟
ملک کی نوخیز جمہوریت پر پہلا وار بھی اکتوبر ہی کے مہینہ میں ہوا جب سن چون میں گورنر جنرل غلام محمد نے آنًا فانًا دستور ساز اسمبلی توڑ دی اور ملک کو سیاسی بحران کی تاریکی میں دھکیل دیا۔
پاکستان کی جمہوریت پر تازہ وار بھی سات سال قبل اکتوبر ہی کے مہینہ میں ہوا جب جنرل مشرف نے اقتدار پر قبضہ کیا۔
اور پھر ایک سال پہلے اسی مہینہ میں پاکستان اور اس کے زیر انتظام کشمیر میں وہ ہولناک اور تباہ کن زلزلہ آیا جس نے نہایت سفاکانہ انداز سے تہتر ہزار افراد کو موت کی گھاٹی میں دھکیل دیا اور اب بھی ہزاروں افراد بے سرو سامانی کے عالم میں زندگی گزار رہے ہیں۔
غرض سات اکتوبر سن اٹھاون کو جنرل ایوب خان کی قیادت میں فوج نے منتخب وزیر اعظم ملک فیروز خان نون کی حکومت کا تختہ الٹ کر اقتدار پر تسلط جمایا تھا- یہ پہلا حملہ تھا پاکستان کی فوج کا خود اپنے ملک پر، اس کے جمہوری نظام پر جس کے بعد پاکستان کبھی نہ سنبھل سکا اور فوجی طالع آزماؤں کے لیئے ملک پر یلغاروں کا راستہ کھل گیا۔
سات اکتوبر سن اٹھاون کے فوجی ’انقلاب‘ کے لیئے راہ در اصل سن تریپن ہی سے ہموار ہونی شروع ہوگئی تھی جب گورنر جنرل غلام محمد نے پارلیمینٹ میں بجٹ کی منظوری اور اعتماد کے ووٹ کے فورًا بعد وزیر اعظم خواجہ ناظم الدین کو اچانک برطرف کر دیا تھا اور امریکہ میں پاکستان کے سفیر محمد علی بوگرا کو وطن بلا کر وزارت اعظمی پر فائز کردیا تھا۔ لوگوں کو یہ جاننے میں بہت دیر نہیں لگی کہ غلام محمد نے یہ اقدامات کس کی شہہ پر اور کس کے بل پر کیئے تھے۔
چوبیس اکتوبر سن چون کو گورنر جنرل غلام محمد نے یک لخت دستور ساز اسمبلی توڑنے کا ڈرامائی اقدام کیا۔ اس کے پس پشت سب سے بڑی وجہ ملک میں آبادی اور طاقت کے لحاظ سے صوبوں میں عدم توازن تھا- دستور ساز اسمبلی نے اپنی تحلیل سے ذرا پہلے سات سال کے طویل عرصہ کے بعد ملک کے پہلے آئین کے خاکہ کے بارے میں بنیادی اصولوں کی کمیٹی کی جو رپورٹ منظور کی تھی، دستور ساز اسمبلی میں پنجاب مسلم لیک کے اراکین جن کی قیادت ملک فیروز خان نون کر رہے تھے اس کے سخت خلاف تھے۔ ان کو خدشہ تھا کہ اس رپورٹ پر مبنی نئے آئین کا بڑی حد تک جھکاؤ مشرقی پاکستان کے حق میں رہے گا جو آبادی کے لخاظ سے سب سے زیادہ اکثریت والا صوبہ تھا۔ انہیں خطرہ تھا کہ پنجاب کو نہ صرف پارلیمینٹ اور سیاسی میدان میں بلکہ بیوروکریسی اور فوج میں بری طرح سے زک اٹھانی پڑے گی۔
پنجاب کا یہ خدشہ اس وقت اور شدت اختیار کر گیا جب مشرقی پاکستان کے وزیر اعلی نور الامین کی شہہ پر سندھ کے وزیر اعلٰی عبدالستار پیرزادہ نے گورنر جنرل کے وسیع اختیارات کو چیلنج کیا اور انہیں محدود کرنے کے لئے دستور ساز اسمبلی میں ایک آئینی ترمیم منظور کرا لی۔
گورنر جنرل غلام محمد اس پر سخت طیش میں آگئے اور اسی کے ساتھ پنجاب کامفاد پرست طبقہ لرز اٹھا۔ اسے یہ خطرہ لاحق ہوا کہ اگر ملک میں جمہوری ڈھانچے کے تحت مشرقی پاکستان کو آبادی کی بنیاد پر بالا دستی حاصل ہوگئی اور وہ ملک کے دوسرے تین چھوٹے صوبوں کے ساتھ کسی معاملہ پر یک رائے اور متحد ہو جائے تو پنجاب سیاسی طور پر بے بس ہو کر رہ جائے گا-
چنانچہ گورنر جنرل غلام محمد کی شہہ پر پانچ اکتوبر سن چون کو ایک اجلاس میں دستور ساز اسمبلی میں پنجاب مسلم لیگ پارٹی نے تین مطالبات پر مشتمل ایک الٹی میٹم پیش کیا اور کہا کہ اگر اس کے یہ مطالبات تسلیم نہ کیئے گئے تو اٹھائیس اکتوبر کو دستور ساز اسمبلی کے اجلاس سے قبل پارٹی کے تمام اراکین ، اسمبلی سے اجتماعی طور پر مستعفی ہوجائیں گے-
پنجاب مسلم لیگ اسمبلی پارٹی نے جو تین مطالبات پیش کیئے تھے ان میں پہلا مطالبہ تھا کہ آئین میں مرکز کے پاس صرف چار امور ہونے چاہئیں- اول دفاع، دوم امور خارجہ سوم کرنسی اور بیرونی تجارت چہارم صوبائی مواصلات-
دوسرا مطالبہ تھا کہ ان امور کے علاوہ تمام امور صوبوں کو تفویض کرنے کے لیئے تمام صوبوں کے نمائندوں کی کمیٹی فیصلہ کرے۔
تیسرا مطالبہ یہ تھا کہ اگلے پانچ برس تک نئے آئین میں کوئی ترمیم اس وقت تک منظور نہیں ہو سکتی جب تک کہ اس کے حق میں تمام صوبوں کی اسمبلیوں میں تیس فی صد اراکین کی حمایت حاصل نہ ہو-
اس دوران گورنر جنرل غلام محمد کی ایما پر ملک فیروز خان نون زیورخ گئے جہاں عوامی لیگ کے سربراہ حسین شہید سہروردی زیر علاج تھے۔ زیورخ میں نون اور سہرودی کے درمیان سودا طے پایا جس کے تحت سہروردی نے مشرقی پاکستان میں جگتو فرنٹ کی معطل حکومت کی بحالی کے وعدہ کے عوض دستور ساز اسمبلی کو برخاست کرنے پر آمادگی ظاہر کی اور اسی کے ساتھ مغربی پاکستان کے تینوں صوبوں اور چھ نوابی ریاستوں کو ایک یونٹ میں ضم کرنے کی بھی تجویز تسلیم کر لی۔
اسی سودے کے بل پر گورنر جنرل غلام محمد نے دستور ساز اسمبلی توڑ دی-
دستور ساز اسمبلی کی تحلیل سے قبل غلام محمد نے امریکی نواز محمد علی بوگرا کو وزیر اعظم مقرر کیا تھا جنہوں نے اپنی کابینہ میں پہلی بار مسلح افواج کے کمانڈر ان چیف جنرل ایوب خان کو وزیر دفاع مقرر کیا تھا-
اس زمانہ میں محض یہ شبہات تھے کہ پاکستان میں ان تبدیلیوں کے پیچھے امریکہ کا براہ راست ہاتھ تھا لیکن اب جو حقائق اور دستاویزات سامنے آئے ہیں ان کے پیش نظر یہ بات راز نہیں رہی ہے کہ پاکستان کے معاملات میں جو اس زمانہ میں امریکہ کے دو فوجی معاہدوں سیاٹو اور سینٹو کا ممبر تھا، امریکہ بلا واسطہ طور پر مداخلت کر رہا تھا-
اس زمانہ میں پاکستان کی بے کس اور بے اثر کمونسٹ پارٹی پر پابندی عائد کرانے کے لیئے امریکہ کے نائب صدر رچرڈ نکسن بذات خود پاکستان آئے تھے اور ان کے قیام کے دوران پاکستان میں بائیں بازو کے دانشوروں، صحافیوں اور ٹریڈ یونین رہمناؤں اور کارکنوں کی بڑے پیمانہ پر گرفتاریاں عمل میں آئی تھیں۔ یہ پہلا وار تھا ملک میں شہری آزادیوں پر-
اس کے باوجود اس زمانہ کے سیاست دانوں میں کچھ دم باقی تھا، خاص طور پر مشرقی پاکستان کے سیاست دانوں میں جنہوں نے غلام محمد کی جگہ مقرر ہونے والے گورنر جنرل اسکندر مرزا اور ان کے مقرر کردہ وزیر اعظم چودھری محمد علی کو نئی دستور ساز اسمبلی کی تشکیل پر مجبور کیا جو صوبائی اسمبلیوں سے بلواسطہ طور پر منتخب ہوئی تھی-
اس دستور ساز اسمبلی نے سب سے پہلے تو مغربی پاکستان میں تینوں صوبوں اور چھ نوابی ریاستیں ایک یونٹ میں ضم کرنے کا فیصلہ کیا جس کے بعد ملک عملی طور پر دو حصوں میں بٹ گیا جس کے مضمرات آئندہ چل کر ملک کے لیئے مہلک ثابت ہوئے-
اس دستور ساز اسمبلی نے سن انیس سو چھپن میں ملک کا پہلا آئین منظور کیا جو ملک کو سیاسی استحکام بخشنے میں اس بناء پر یکسر ناکام رہا کیونکہ اس کی تمام تر اساس غیر جمہوری تھی- اس آئین کے ذریعہ ایک طرف جبرًا ملک کی سب سے بڑی آبادی والے صوبہ مشرقی پاکستان پر مساوی نمائندگی (پیریٹی) تھوپی گئی اور اسے اکثریت کے تمام حقوق اور استحقاقات سے محروم کر دیا گیا دوسری طرف مغربی پاکستان کے چھوٹے صوبوں کو زبردستی ایک یونٹ میں ضم کردیا گیا-
سن چھپن کے آئین کی منظوری کے بعد سن انسٹھ میں ملک میں عام انتخابات ہونے والے تھے- نئے آئین کے تحت ملک کے پہلے صدر مقرر ہونے والے اسکندر مرزا نے اپنی پارٹی ریپبلکن پارٹی کی فتح کے لیئے بڑے پیمانہ پر جوڑ توڑ شروع کردی تھی اور اسی مقصد سے سب سے پہلے انہوں نے وزیر اعظم چوھری محمد علی کو مستعفی ہونے پر مجبور کیا اور ان کی جگہ عوامی لیگ کےحسین شہید سہرودی کو وزیر اعظم مقرر کیا۔ پھر ایک سال کے بعد سن ستاون میں مسلم لیگ کے آئی آئی چندریگر کو چند ماہ کے لیئے وزیر اعظم بنایا۔ ان کے بعد ملک فیروز خان نون کو وزارت اعظمی پر فائز کیا-
ان تمام تقرریوں اور برطرفیوں کا مقصد عوام پر یہ ثابت کرنا تھا کہ سیاست دان یکسر ناکام ہوگئے ہیں۔
اور پھر سات اکتوبر کو صدر اسکندر مرزا نے آئین منسوخ کر کے مارشل لاء نافذ کردیا۔ چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر جنرل ایوب خان تھے ظاہر ہے ایک نیام میں دو تلواریں نہیں رہ سکتی تھیں- ویسے بھی آئین کی تنسیخ کے بعد صدر کا عہدہ بے معنی ہو گیا تھا- چنانچہ ستائیس اکتوبر کو ایک اور انقلاب آیا اور صدر اسکندر مرزا کو نہ صرف اپنے عہدہ سے ہاتھ دھونا پڑا بلکہ ملک سے جلا وطنی بھی اختیار کرنی پڑی-
یہ ستم ظریفی ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو جنہوں نے ملک کی سیاست کو عوامی انداز بخشا اور جو سن بہتر سے لے کر سن ستتر تک ملک کے مختصر جمہوری دور میں سیاسی تقدیر کے مالک تھے سن اٹھاون کے اسی فوجی دور کی دین تھے جب پاکستانی فوج نے اپنے ملک پر پہلا حملہ کیا تھا-
جنرل ایوب خان کو اپنی کابینہ کے لیئے سندھ کا ایک نمائندہ درکار تھا جو انہیں نہیں مل رہا تھا- اسکندر مرزا نے، جن کی ایرانی نژاد اہلیہ ناہید مرزا، ذوالفقار علی بھٹو کی ایرانی نژاد اہلیہ نصر ت بھٹو کی سہیلی تھیں، ایوب خان کی کابینہ کے لیئے ذوالفقار علی بھٹو کا نام تجویز کیا تھا اور یوں وہ پہلی بار پاکستان کی سیاست میں وارد ہوئے۔
بہرحال سات اکتوبر سن اٹھاون کو اقتدار پر تسلط جمانے کےبعد جنرل ایوب خان گیارہ سال تک حکمران رہے۔ ان کے دور کو ان کے نقیبوں نے ترقی کی دہائی قرار دی لیکن در اصل پاکستان کے اس اوائلی دور میں یہ تباہی کی دہائی تھی جب کہ ملک میں جمہوریت کا ڈھانچہ کھوکھلا ہوگیا- سیاسی جماعتوں کانطام درہم برہم ہوگیا اور سن انیس سو پینسٹھ میں ہندوستان کے ساتھ ایسی بے مقصد اور بے نتیجہ جنگ ہوئی جس نے ملک کو دو لخت کرنے کی راہ ہموا کردی۔