Friday, December 28, 2007

فوجی چھاؤنیوں کی سیاست

اور اب سوات کے قریب مٹہ میں بھی ایک چھاؤنی بنانے کی تیاری کی جا رہی ہے۔ فوج کو احساس ہوا ہے کہ ملک کی سالمیت اور سوات کو ’دہشت گردوں‘ سے خطرے کا ایک ہی جواب ہے کہ وہاں ایک چھاؤنی بنا دی جائے۔

یہ بالکل اسی طرح ہے جیسے اس سے پہلے بلوچستان میں سوئی اور ڈیرہ بگٹی کے مقام پر اور اُس سے پہلے سندھ میں پنو عاقل میں چھاؤنیاں بنائی گئیں۔

یہ فوج کے پکے ڈیرے جس میں ایک آرمی کی کور رہتی ہے، بنانے کی آخر کیا ضرورت پڑتی ہے؟ سب سے بڑی وجہ ہے تحفظ۔ نواب اکبر بگٹی کے خیال میں اپنے ملک میں کس سے خطرہ ہے جو کہ ایک جگہ سات ہزار سے آٹھ ہزار فوج رکھی جائے۔ آخر سوئی، ڈیرہ بگٹی اور سوات میں کوئی بیرونی خطرہ تو لاحق نہیں۔

یہ بات قابل غور ہے کہ جب بھی ملک کے کسی حصہ میں خطرہ ہوتا ہے یا ٹینشن بڑھتی ہے تو فوج ایک نئی چھاؤنی بنا لیتی ہے۔ انیس سو اسی کی دہائی میں سندھ کی فضا جب تلخ ہوئی تو پنو عاقل کی چھاؤنی بنائی گئی۔ دلچسپ بات تو مزید یہ ہے کہ وہ تمام سیاسی قوتیں جب طاقت میں آنا چاہتی ہیں وہ فوج کے سب وہ فیصلے جس میں اس ادارے کی خاص دلچسپی ہوتی ہے، ان کی تائید کرتی ہیں۔ مثال کے طور پر پنو عاقل کی چھاؤنی کی تعمیر کی پاکستان پیپلز پارٹی نے شدید مخالفت کی لیکن بعد میں وزیراعظم بننے کے بعد بینظیر بھٹو نے سندھی عوام کو مخاطب کرتے ہوئے ایک جلسے میں کہا کہ یہ چھاؤنی صوبہ کی معاشی ترقی کے لیے ضروری ہے اور سندھی عوام کو فوج میں جانا چاہیے۔

یہ بات سندھی عوام نے تو اس وقت سن لی لیکن فوج کی ہائی کمان نے یہ بات شاید اب سنی ہے کیونکہ سن دو ہزار ایک کے بعد کوئی تقریباً اسی ہزار سندھیوں کو فوج میں لیا گیا ہے اور ان میں سے بہت سے لوگ وزیرستان میں جنگ لڑ رہے ہیں۔

چھاؤنیاں ریکروٹمنٹ کے کام میں بہت مدد دیتی ہیں۔ ان کے ہونے سے مقامی لوگوں کو ادارے کی طاقت کا اندازہ ہوتا ہے۔ چونکہ ہر کوئی طاقتور سے جنگ کرنے کی جسارت نہیں کر سکتا تو بہت سے لوگ پھر فوج کی طاقت کا حصہ بننے کی کوشش کرتے ہیں، بلکہ فوج کے ادارے آئی ایس پی آر نے چند ماہ پہلے ایک پیپر شائع کیا جس میں یہ بتایا گیا تھا کہ چھوٹے صوبے یعنی سندھ، بلوچستان اور فرنٹیئر سے فوج میں بھرتی میں اضافہ کیا جائے گا۔ شاید اس طرح ان صوبوں کے معاشروں میں بھی ملیٹرائزیشن میں اضافہ کیا جائے گا۔ یاد رہے کہ خود اسرائیل میں اسی طریقہ سے فوج کی اہمیت بڑھائی گئی۔

جب فوج ایک معاشرہ کا حصہ بنتی ہے تو لوگوں کو فوج کے سیاسی استحصال پر اعتراض نہیں رہتا۔ پھر عام لوگ بھی سیاسی مسائل کے فوجی طریقوں سے حل کرنے کو برا نہیں سمجھتے۔

خیر سوات میں فوجی چھاؤنی بنانے کے تو اور بھی فوائد ہوں گے۔ اس طرح سے فوج اس سمگلنگ کو جو کہ مبینہ طور پر گلگت اور سوات سے ہوتی ہے، اس پر قابو پا سکے گی۔ اس وقت بہت سا سامان چین سے اسی راستہ سے آتا ہے۔

جہاں تک رہی بلوچستان میں دو نئی چھاؤنیوں کی بات، تو یہ ریاست کے کنٹرول کو بڑھانے میں مدد دیں گی جس کی وجہ سے بیرون ملک اور اندرون ملک کے سرمایہ کار اس صوبہ میں آئیں گے۔ رہی بلوچ لوگوں کی بات تو چلیں وہ بعد میں کریں گے، ابھی سرمایہ تو آئے۔

No comments: