میں جہاں بھی گیا اے عرض وطن
تیری تذلیل کے داغوں کی جلن
اپنوں کی بے وفاءیوں کی کڑھن
غیروں کے نیزوں کی چبھن
تیرے سپاہیوں کے ہاتھوں پہ
تیرے بیٹوں کا لہو
تیری بیٹیوں کی عزتوں کے تار
تیرے محافظوں کے گلوں کے ہار
تو ہی قاتل ، تو ہی منصف
تو ہی دشمن ، توہی دوست
سارے عالم میں تیری تباہی کے قصے
تیری بربادی میں "اپنوں کے حصے"
تیری گلیوں میں
اب "مظلوم"رہتے ہیں
ظلم کرتے تھے
ظلم سہتے ہیں
بےحس تھے
بے بس ہیں
نہ کوءی تمنا، نہ حرف دعا
نہ رسم الفت، نہ عہد وفا
اب کون تیرے لیءے جیتا ہے؟
اب تیرے نام پہ کون مرتا ہے؟
اب توگھر لوٹنے سے ڈر لگتا ہے
اب توگھر لوٹنے سے ڈر لگتا ہے
No comments:
Post a Comment