تو کیا فوج پر تنقید نہیں کی جا سکتی؟ اگر وفاقی وزیر اطلاعات کی ہدایت مان لی جائے تو فوج پر تنقید آئین کے خلاف ہے اور اگر ان کے لہجے پر توجہ دی جائےتو اس میں جاں کا زیاں ہے یعنی تنقید میں۔ خطاب تو محمد علی درّانی صحافیوں سے کر رہے تھے جو ان کی دعوت پر روزہ افطار کرنے آئے تھے مگر ان کا لہجہ میزبان کا نہیں رہا تھا۔ اپنی تقریر کے دوران انہوں نے اچانک اپنے مہمانوں کو حیران کر دیا جب سخت لہجہ میں، جسے اکثریت نے دھمکی آمیز محسوس کیا، انہوں نے کہا کہ فوج پر تنقید برداشت نہیں کی جائیگی نہ اس کی اجازت دی جائیگی۔ (برسبیل تذکرہ، اجازت نہیں دی جائےگی دراصل انگریزی ترکیبwill not be allowed
کا غلط ترجمہ ہے جو اب عام ہوگیا ہے اور اس مذاق کا باعث بن گیا ہے کہ مثلاً آپ سے دہشت گردی کی اجازت کون مانگتا ہے صحیح ترجمہ ’نہیں کرنے دیا جائے گا گی ہونا چاہئے) اور یہ بات کہ آئین فوج پر تنقید کی اجازت نہیں دیتا محمد علی درّانی نے کئی بار اور زور دے دے کر کہی۔
آئین تو بہت سی باتوں کی اجازت نہیں دیتا، یعنی وہ آئین جو 1973 میں بنایا گیا تھا اور جس کا حلیہ فوجی اور سول حکمرانوں نے نا قابل شناخت حد تک بگاڑ دیا ہے، اب بھی فوج کو حکمرانی کاحق نہیں دیتا۔ درّانی صاحب بار بار آئین کا حوالہ دے رہے تھے۔ انہوں نے یقیناً آئین کا اچھی طرح مطالعہ کیا ہوگا ورنہ وہ کیوں اس کا حوالہ دیتے۔
اب یہ کون پوچھے کہ جب سے آئین بنا ہے اسے اب تک دوبار معطل کیا گیا۔ یعنی جنرل ضیاالحق اور جنرل پرویز مشرف نے اسےمعطل کیا، اسے بالائے طاق رکھا اور اپنے ’فرد واحد‘ کے آئین نافذ کیے۔ وہ آرٹیکل چھ جسے آئین کے تحفظ کے لیے شامل کیا گیا تھا ٹُک ٹُک دیدم، دم نہ کشیدم بنا رہا، بنا ہوا ہے۔
اس آئین میں کہیں یہ بھی لکھا ہے کہ صدر مملکت کوئی اور منافع بخش عہدہ اپنے پاس نہیں رکھ سکتا۔ اس کا واضح مطلب ہے کہ کوئی سرکاری ملازم صدر کا عہدہ نہیں سنبھال سکتا۔ مگر دونوں جنرلوں نے بری فوج کاسرکاری عہدہ بھی سنبھالا اور صدر کے عہدے پر بھی قابض رہے۔ اگر کوئی قانون راہ میں حائل ہوا تو اسے اکثریت کے ذریعے اسمبلی میں بلڈوز کروا دیا گیا۔ آئین منہ دیکھتا رہ گیا وہی آئین جو بقول وزیر اطلاعات فوج پر تنقید کی اجازت نہیں دیتا۔
اس آئین میں کہیں فوجیوں کے حلف میں یہ جملے بھی درج ہیں کہ ’میں حلف اٹھاتا ہوں کہ سیاست میں حصہ نہیں لونگا‘۔ اس حلف کے باوجود جنرل ضیاالحق اور جنرل مشرف دونوں سیاست میں بری طرح ملوث رہے۔ جنرل مشرف اب بھی ہیں اور ملوث رہیں گے۔ حلف کے الفاظ بے روح بے معنی رہے اور آئین منہ دیکھتا رہ گیا۔
اور ایک دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ دھمکی، درانی صاحب نے دھمکی ہی دی تھی، اس میں کوئی شبہ نہیں۔ ایک سویلین سینیٹر کی طرف سے آئی اور شہریوں کے لیے تھی یا ان کے ترجمانوں کے لیے، یعنی صحافیوں کے لیے۔ فوج کو ہمیشہ بے وردی ترجمان کثرت سے مل جاتے ہیں۔
درّانی صاحب کی دعوت میں بھی، جہاں انہوں نے میزبانی کے آداب اٹھا رکھے تھے، یہ سوال بھی ہوا کہ اگر فوج سیاست میں ملوث ہوگی تو اس پر تنقید کیوں نہیں ہوسکتی؟ اور بہت سے سوال نہیں ہوسکے۔
مثلاً یہ سادہ سا سوال کہ اگر منتخب لوگوں پر نہ صرف تنقید ہوسکتی ہے بلکہ انہیں کٹہروں میں بھی کھڑا کیا جاسکتا ہے، ان پر بدعنوانی کے الزامات عائد کرکے مقدمات چلائے جاسکتے ہیں تو آخر فوج پر، اس کی کارکردگی پر تنقید کیوں نہیں ہوسکتی؟
فوج انیس سو اکہتر میں بھی مقدس گائے تھی جس کے نتیجے میں ملک دو ٹکڑے ہوگیا۔ اگراس وقت کے فوجی حکمران جنرل یحیٰی پر تنقید ہوسکتی ہوتی تو ملک ایک بڑے بحران اورقوم بہت بڑی شرمندگی سے بچ سکتی تھی۔
سوال یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اگر فوجی اہلکار اللّے تللّوں میں مصروف ہوں، اگر اپنے اختیارات کا ناجائز استعمال کررہے ہوں اگر کراچی کے نیشنل سٹیڈیم کی بے انتہا قیمتی زمین پر جنرلوں نے قبضہ کرکے اپنی رہائشی کالونی بنالی ہو تو ان پر تنقید کیوں نہیں ہوسکتی؟
اور اب فوج صرف ایسا ادارہ نہیں رہا جو دفاع پاکستان کا ذمہ دار ہو۔ وہ کاروبار کر رہی ہے رئیل سٹیٹ میں ملوث ہے، اس کے پٹرول پمپ ہیں اس کے تحت بہت سی کارپوریشن ہیں اور سب سے اہم یہ کہ وہ سیاست میں ملوث ہوکر ملک کے سیاہ سفید کی مالک بن گئی ہے۔
اس کےکئی ذیلی ادارے کئی عشروں سے ملک کی اندرونی سیاست میں ملوث ہیں، قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات میں ہیرا پھیری کرکے اپنی مرضی کے نمائندے منتخب کراتے ہیں، لوگوں کی وفاداری تبدیل کرکے حکومت بنواتے ہیں، اور بہت کچھ کرتے ہیں، تو درّانی صاحب یہی سب کچھ اگر سویلین لوگ کرتے ہیں تو کیا ان پر تنقید نہیں ہوگی۔ اگر آپ چاہتے ہیں کہ فوج پر تنقید نہ ہو تو فوج کو چاہیے کہ اپنا رویہ تبدیل کرے، بہت تبدیل کرے۔ فوج پر صرف اسی صورت میں تنقید نہیں ہوگی جب وہ اپنی توجہ صرف اور صرف ملک کے دفاع پر مرکوز کرے گی۔ وہ یا اس کے اہلکار جو اس کی نمائندگی کرتے ہیں ادھر ادھر منہ ماریں گے تو تنقید تو ہوگی۔ آپ کے کہنے سے یا دہمکی سے‘ یہ تنقید رک نہیں سکتی۔ نہ پہلے رکی ہے نہ آئندہ رکے گی۔
No comments:
Post a Comment