لاطینی امریکہ کی فوجی اور شخصی آمریتیں شہریوں سے کس طرح نمٹتی تھیں۔ اسکا پورا پورا اندازہ کرنا میرے لیئے بہت مشکل ہوتا اگر میں سن ستر اور اسّی کے عشرے میں پنپنے والے لاطینی امریکہ اور ریاست ہائے متحدہ امریکہ کے مزاحمتی سینما سے متعارف نہ ہوتا۔
یہ وہ زمانہ تھا جب چِلی سے لے کر وینزویلا تک اور ارجنٹینا سے لے کر نکاراگوا تک سارا جنوبی اور وسطی امریکہ کا براعظم آمریت کے بوٹوں تلے دبا پڑا تھا۔
سانتیاگو سے ماناگوا تک سرکاری ڈیتھ اسکواڈ سادہ کپڑوں میں ہر حکومت مخالف کے سائے کو سونگھتے پھر رہے تھے۔ کسی بھی سویلین کے دروازے پر نصف شب کو ایک دستک ہوتی تھی اور سرکاری باز شکار کو دبوچ کر تاریکی میں غائب ہوجاتے تھے۔ کچھ عرصے بعد شکار کی لاش کسی ویرانے میں یا پھر سڑک کے کنارے پائی جاتی تھی۔اور ایک فون شکار کے گھر پر آتا تھا۔ فلاں جگہ سے اٹھا کر لے جاؤ۔ ہزاروں ایسے تھے جن کے بارے میں آج تک معلوم نہیں ہوسکا کہ انہیں آسمان کھا گیا یا زمین نگل گئی۔
آج جبکہ لاطینی امریکہ کے طول و عرض میں جمہوری نظام بحال ہوچکا ہے۔ سینکڑوں مائیں سال کے کسی بھی دن سانتیاگو، بیونس آئرس، بوگوٹا یا لاپاز کے مرکزی چوکوں پر اپنے غائب بچوں کی تصاویر اور بینرز کے ساتھ نظر آسکتی ہیں۔
مجھے آج ’مِسنگ‘ نامی فلم یاد آرہی ہے جس میں ایک امریکی باپ چِلی میں فوجی آمریت قائم ہونے کے فوراً بعد غائب ہونے والے اپنے صحافی بیٹے کو تلاش کرنے پہنچتا ہے۔امریکی سفارتخانہ اس معاملے سے لاتعلقی ظاہر کرتا ہے۔ فوجی حکومت اسکے اغوا سے لاعلمی کا اظہار کرتی ہے۔ لیکن اسکی لاش سانتیاگو کے مرکزی اسٹیڈیم میں سینکڑوں دیگر لاشوں کے درمیان مل جاتی ہے۔اسکے باوجود امریکی حکومت اس صحافی کی موت کے اسباب کو کلاسیفائیڈ قرار دے کر تحقیقات کا دروازہ بند کردیتی ہے۔
مسنگ کے علاوہ ’انڈر فائر‘ اور ’ریڈز‘ جیسی فلمیں میں نے اس وقت دیکھی تھیں جب جنرل ضیا الحق کی آمریت عروج پر تھی۔اور مجھے یہ سوچ سوچ کر اطمینان رہتا تھا کہ پاکستان میں اب تک جتنی بھی آمریتیں آئی ہیں انہوں نے لوگوں کو جیلوں میں ٹھونسا ہے، کوڑے مارے ہیں اور فوجی عدالتوں کے ذریعے پھانسیاں تک دی ہیں لیکن لاطینی امریکہ کی طرح نصف شب کی دستک اور بندے کو بالکل غائب کردینے اور اسکی زندہ یا مردہ تحویل کی ذمہ داری لینے سے انکار نہیں کیا۔
لیکن جب سے القاعدہ، وزیرستان اور بلوچستان کا شاخسانہ اٹھا ہے۔ مخالفین سے نمٹنے کا لاطینی امریکی آمرانہ کلچر غیر اعلانیہ طور پر نافذ ہوگیا ہے۔ بیسیوں غائب شہری کسی سرکاری ریکارڈ میں نہیں ہیں۔
وزیرستان کا صحافی حیات اللہ خان جن حالات میں غائب اور ہلاک ہوا اس کے بعد جنرل پنوشے کے چلی، جنرل گالتیری کے ارجنٹینا اور جنرل مشرف کے پاکستان میں کس قدر فرق باقی رہ گیا۔
حیات اللہ کی ماں خوش قسمت ہے کہ اس نے اپنا بیٹا مردہ ہی سہی دیکھ تو لیا۔کیا باقی غائب لوگوں کی مائیں بھی اتنی ہی خوش قسمت ثابت ہوں گی۔
No comments:
Post a Comment