اگر اگلے ایک برس تک سب کچھ اسی طرح قائم و دائم رہا تو صدر پرویز مشرف کو بجا طور پر یہ کریڈٹ جائےگا کہ ان کے ہوتے ہوئے پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ پارلیمنٹ نے اپنی پانچ سالہ مدت مکمل کی اور وفاقی اور صوبائی سطح پر حکومتی تسلسل بھی برقرار رہا۔
یہ سب اس وجہ سے ممکن ہو رہا ہے کیونکہ اکتوبر سن دو ہزار دو کے انتخابات کے بعد سے سارا سیاسی کھیل کچھ لو اور کچھ دو کے جذبے کے ساتھ کھیلا جا رہا ہے اور پارلیمنٹ نے صدر کو اور صدر نے پارلیمنٹ کو اپنے اپنے دائرہ کار میں کھلی چھوٹ دے رکھی ہے۔
صدر کو بھلا ایسی پارلیمنٹ کا وجود کیسے برا لگ سکتا ہے جس نے اپنی باگیں رضاکارانہ طور پر سترہویں ترمیم کے ذریعے صدر کے حوالے کر دیں اور اس کے بدلے میں صدر نے پارلیمنٹ کی کارکردگی سے کبھی کوئی سروکار نہیں رکھا۔ نہ تو انہوں نے کبھی اس کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کی ضرورت محسوس کی اور نہ ہی انہیں کبھی اس بات پر تشویش ہوئی کہ دونوں ایوان کس معیار کی قانون سازی کررہے ہیں یا پچھلے چار برس میں تین سو سے زائد مرتبہ پارلیمنٹ کا کورم کیوں ٹوٹا۔
صدرِ مملکت ایک سے زائد مرتبہ کہہ چکے ہیں کہ پارلیمنٹ میں جس طرح کے لوگ بھرے ہوئے ہیں وہ ان کے منہ لگنا زیادہ پسند نہیں کرتے لیکن یہ پارلیمنٹ جتنی بھی غیر معیاری سہی صدرِ مملکت کو اگلی مرتبہ صدر منتخب ہونے کے لیئے بہرحال اس کی ضرورت ہے۔ دنیا میں بھلا ایسا کونسا حکمران ہوگا جو اتنی بے ضرر پارلیمنٹ کو اپنی آئینی مدت پوری نہیں کرنے دے گا۔
جتنا اعتماد صدر کو موجودہ پارلیمنٹ پر ہے اس سے زیادہ اعتماد انہیں اپنے وزیرِاعظم اور کابینہ پر ہے۔ نہ تو انہیں پاکستان کی تاریخ کی سب سے بڑی کابینہ پر اعتراض ہے اور نہ ہی اس کابینہ میں ’نیب زدہ‘ یا مبینہ طور پر مشکوک تعلیمی ڈگری رکھنے والے کسی فرد کی شمولیت پر ان کی پیشانی پر بل پڑتے ہیں۔ نہ وہ اس جھمیلے میں پڑتے ہیں کہ اندھا دھند اونے پونے نجکاری میں کون کسے فائدہ پہنچا رہا ہے یا حکمران اتحاد کے کون کون سے لوگ شوگر سکینڈل، پٹرول سکینڈل، ریل انجن خریداری سکینڈل جیسے ہاتھیوں کو قالین تلے دبانے میں کامیاب ہوئے۔
ماضی کے صدور نے جونیجو، بے نظیر اور نواز شریف حکومتوں کو موجودہ حالات سے کم سنگین حالات کے باوجود برطرف کردیا تھا لیکن صدر مشرف نے آج تک اپنے کسی وزیرِاعظم کو حکومتی کارکردگی پر سرزنش بھرا خط تک نہیں لکھا۔وجہ یہ ہے کہ یہی وہ لوگ ہیں جو صدرِ مملکت کو موجودہ پارلیمنٹ نامی آئینی بنتوستان سے دوبارہ اعتماد کا ووٹ دلوائیں گے۔
جہاں تک صوبائی حکومتوں کے تسلسل کا معاملہ ہے تو صدرِ مملکت کو سرحد اور بلوچستان میں ایسی حکومتوں کے وجود پر بھلا کیا اعتراض ہوسکتا ہے جو شور مچانے کے باوجود اسی تنخواہ پر کام کرنے پر آمادہ ہوں۔ ان حکومتوں کو جب وزیرستان اور بلوچستان میں وفاقی حکومت کی بلا مشورہ کارروائیوں پر کوئی اعتراض نہیں تو وفاقی حکومت کو بھلا دونوں صوبائی حکومتوں کی کارکردگی پر کیوں اعتراض ہونے لگا۔
رہی بات پنجاب اور سندھ کے سیٹ اپ کی تو وہاں کی حکومتیں صدر مشرف کی اس قدر مرہونِ منت ہیں کہ عملاً وزیرِاعظم شوکت عزیز کو بھی صوبائی وزیر ہی سمجھتی ہیں۔
بات یہ ہے کہ شیر جنگل کا بادشاہ ہے اور جب وہ شکار کرتا ہے تو ایک حصہ اپنے لئے اور ایک شیرنی اور بچوں کے لیئے مختص کرتا ہے جبکہ تیسرا حصہ کھلا چھوڑ دیتا ہے تاکہ جس جانور میں ہمت ہے وہ اٹھا کر لے جائے۔ جب جنگل کے سارے جانور یہ فارمولا قبول کرلیتے ہیں تو وہاں کا سارا سیٹ اپ خوش اسلوبی سے چلتا رہتا ہے۔
No comments:
Post a Comment