Friday, December 28, 2007

نذیر عباسی: ایک کمیونسٹ کا قتل

ضیاء دور میں نذیر عباسی نے قلی کیمپ کوئٹہ سے رہائی پائی تو انہوں نے اپنا احوال بیان کرتے ہوئے مجھے بتایا تھا کہ خفیہ اداروں کے اہلکاروں کا کہنا ہے کہ تم نے کام بند نہیں کیا اور اب کے پکڑے گئے تو زندہ نہیں بچوگے۔

سال انیس سو اسی میں ان اہلکاروں نے یہ بات سچ ثابت کرکے دکھائی اور نذیر عباسی دوران تفتیش ہلاک ہو گئے۔

اب تو بہت کچھ بدل چکا ہے۔ حکومت اور امریکہ کو نہ کسی کے کمیونسٹ ہونے پر اورنہ کمیونسٹ پارٹی پر اعتراض ہے۔ پچاس کی دہائی سے لے کرسوویت یونین کے ٹوٹنے تک کمیونسٹ ہونا حکومت کے لیے ایسا تھا جیسے سانپ کی دم پر پاؤں رکھ لیا ہو۔

جب بھی کوئی اہم موڑ آیا اور کوئی کمیونسٹ مقبول لیڈر کے طور پر ابھرا، حکومت نے اسے حسن ناصر اور نذیر عباسی کی طرح زندہ نہیں چھوڑا یا جام ساقی کی طرح تب تک قید رکھا کہ وہ ذہنی یا جسمانی طور پر اپاہج ہو جائے۔

اس لیے پارٹی اور اس کے لیڈر اور کارکن زیرِ زمین یعنی روپوش ہو کر کام کرتے تھے۔

افغانستان میں کمیونسٹ انقلاب کے بعد پاکستان کی حکومت ڈری ہوئی تھی کہ کہیں یہاں پر بھی کوئی ایسا انقلاب نہ آ جائے۔ اس زمانے میں پارٹی نے ’چھینو چھینو پاکستان، جیسے چھینا افغانستان‘ کے موضوع سے ایک ہینڈ بل شائع کیا جو ملک بھر میں تقسیم کیا گیا۔

یہ ہینڈ بل اشاعت سے لے کر اور بعد میں بھی خاصا متنازع رہا کہ واقعی پاکستان کے کمیونسٹ اس پوزیشن میں ہیں یا تھے کہ وہ افغانستان کی طرح یہاں انقلاب لے آتے؟

بہر حال افغان انقلاب کے بعد پاکستان حکومت کی نظر میں کمیونسٹ اور زیادہ خطرناک ہوگئے تھے۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ لوگوں میں کمیونسٹوں کی مقبولیت بڑھ رہی تھی۔

جام ساقی کی گرفتاری پاکستان کے کمیونسٹوں کے لیے بڑا دھچکا تھا۔ دوسرا دھچکا کمیونسٹ پارٹی کے ٹریڈ یونین فرنٹ پر کام کرنے والے اور مقبول مزدور رہنما شمیم واسطی کی گرفتاری تھی۔

حکومت نےتیسرا وار انیس سو اسی میں کیا جب حکومت پارٹی کے تین خفیہ مقامات کا سراغ لگانے میں کامیاب ہو گئی جو پارٹی کے دفاتر کے طور پر کام کرتے تھے۔ یوں ضیاء حکومت پارٹی کے سرکردہ رہنما گرفتار کرنے اور اس کا نیٹ ورک توڑنے میں کامیاب ہوگئی۔

فوج کے خفیہ اداروں نے کراچی کی ایک کچی آبادی میں چھاپا مار کر وہاں سے پروفیسر جمال نقوی، نذیر عباسی، کمال وارثی اور شبیر شر کو گرفتار کر لیا۔
بعد میں اسی مقدمے میں میری اور بدر ابڑو، امر لال کو بھی گرفتار کیا گیا۔

یہ مقدمہ بعد میں جام ساقی کیس کے طور پر مشہور ہوا۔ ملک کے نامور سیاستدان بینظیر بھٹو، ولی خان، میر غوث بخش بزنجو، اور دیگر رہنما کمیونسٹوں کے دفاع کے لیے گواہوں کے طور پر فوجی عدالت میں آئے۔

جام ساقی کی گرفتاری کے بعد نذیر عباسی بتدریج ان کی کمی کو پورا کر رہے تھے۔ وہ نوجوان، باصلاحیت، نڈر اور سیاسی حلقوں میں جانے پہچانے جاتے تھے۔ نذیر عباسی اور پارٹی کے دیگر رہنماؤں کو یہ یقین تھا کہ جام ساقی کو ایک طویل عرصے تک رہائی نہیں ملنے والی۔

نذیر عباسی سے میری پہلی ملاقات ستّر کی دہائی کے شروع میں ہوئی جب بنگال میں فوجی آپریشن چل رہا تھا۔ اس ملاقات کے بعد ہم نے ایک ساتھ پارٹی کی طلبا تنظیم سندھ نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن میں کام کیا۔

اکثر اوقات ایسا بھی ہوتا تھا کہ ہم لوگ یونیورسٹی سے سیدھے حیدرآباد میں واقع ٹریڈ یونین آفس آتے تھے اور وہاں پرمختلف کارخانوں میں مزدوروں کے مسائل پر چلنے والی جدوجہد میں ان کی مدد کرتے تھے۔ ٹریڈ یونین کے ساتھی بشیربہرا، محبوب علی، عبدالحئی، اشفاق پیارے، چاچا مرتضیٰ، چاچا مظہر، قلندر بخش مہر، زمان خان ہوتے تھے۔ کئی مرتبہ ایسا بھی ہوا کہ ہم نے کئی کئی راتیں کالی روڈ کے علاقے میں مزدوروں کی بستیوں میں گزاریں۔ اس دوران ان سے مزدور تحریک اور سیاسی صورتحال پر بات چیت کرتے تھے اور اسٹڈی سرکل چلاتے تھے۔ ہماری اس کوشش کے نتیجے میں بعض مزدور لیڈر پارٹی ممبر بنے۔

بقول نذیر کے کمیونسٹ کام ہمہ جہتی ہوتا ہے۔ ہم اگر طلباء محاذ پر کام کر رہے ہیں تو اپنے آپ کو طلبہ تک محدود نہیں رکھنا چاہیے۔ اسی طرح سے جن جن جگہوں پر ہاری تنظیمیں ہوتی تھیں یا ہاریوں کی جدو جہد چل رہی ہوتی تھی تو نذیر ہمیں وہاں بھی لے جاتے تھے۔ جب یونیورسٹی میں پڑھنے والے طلبا ہاریوں یا مزدوروں میں جاتے تھے تو ان کا حوصلہ بڑھتا تھا۔

جب ہم گاڑی کھاتہ میں اترے تو سب سے پہلے پکوڑے اور ڈبل روٹی خریدی اور ہوٹل میں بیٹھ کر چائے پی۔ نذیر کے کہنے پر پکوڑے والے اور ہوٹل والے کو میں نے پیسے دیئے اور اسٹیشن کی طرف چل پڑے۔ راستے میں وہ بڑے پراسرار انداز میں مسکرائے بتایا کہ پیسے اس کے پاس بھی نہیں ہیں۔ میں نے کہا پھر کیسے چلیں گے نوابشاہ۔ ہم لوگ بغیر ٹکٹ کے ریل گاڑی میں بیٹھ گئے۔ پورا راستہ میں جھگڑتا رہا کہ یہ کیا بے وقوفی ہے۔ پکڑے گئے تو کیا ہوگا؟ انہوں نے کہا کہ ’کوئی آیا تو بتائیں گے کہ طالب علم ہیں اور ہاریوں کے لئے جا رہے ہیں۔ دوسری بات یہ کہ اگر کام کرنا ہی ہے تو سمجھو ہر صورت میں کرنا ہے۔‘

مجھے یاد ہے کہ جب سندھ یونیورسٹی میں سیاسی کام کرتے تھے تو وہ اپنے آبائی شہر ٹنڈوالٰہ یار سے آتے تھے۔ یونیورسٹی سے واپسی پر بس میں دن بھر کے کام کا جائزہ لینے کے لیے نوٹس کا تبادلہ کرنا ہوتا تھا لیکن وہ بس میں سوئے ہوئے ہی ملتے تھے۔

نذیر عباسی پر شادی کرنے کا مقدمہ بھی دائر کیا گیا کہ انہوں نے شادی کے نام پر سیاسی جلسہ کیا ہے۔ انہیں گرفتار کرکے کوئٹہ کے قلی کیمپ میں رکھا گیا۔

اسی عرصے میں ان کے والد کا انتقال ہوا لیکن انہیں آخری دیدار کے لیے بھی رہا نہیں کیا گیا۔ پانچ ماہ کے بعد انہیں ڈرامائی انداز میں رہا کیا گیا۔

ایک دن مذاق میں کہا کہ ’دیکھو میں اور حمیدہ بلوچستان کے پہاڑوں کی سیر کر کے آئے ہیں۔ حمیدہ مچ جیل میں تھیں اور میں کوئٹہ کے قلی کیمپ میں۔‘ شادی کے بعد ان کی بیوی حمیدہ جو کہ پارٹی کی کارکن تھیں، کو ’پٹ فیڈر ہاری تحریک‘ میں گرفتار کر لیا گیا تھا۔

قلی کیمپ کوئٹہ سے واپسی پرپارٹی نے انہیں احتیاط کرنے کی ہدایت کی۔ اس کے بعد نذیر روپوش ہوگئے اور روپوشی میں پارٹی کا کام پہلے سے بھی زیادہ لگن کے ساتھ جاری رکھا۔

تیس جولائی انیس سو اسی کو نزیر عباسی دوبارہ گرفتار ہوگئے اور نو اگست کو انہیں اذیتیں دے کر قتل کر دیا گیا۔ انہیں ایدھی نے غسل اور کفن دیا اور ایک لاوارث کی طرح سخی حسن قبرستان کراچی میں دفنایا گیا۔

گرفتاری کے بعد تحقیقات کے دوران مجھے معلوم نہیں تھا کہ کون کون گرفتار ہے۔ ہاں یہ ضرور ہوا کہ اگست کے مہینے میں ایک دن کچھ افسران آئے اور آ کر میری طبیعت پوچھی اور کہا کہ ٹارچر تو نہیں ہوا ہے۔ مجھے بہت تعجّب ہوا کہ آج اچانک ان کا لب ولہجہ اتنا نرم اور انسانیت والا کیوں ہے۔ میں اس رویے کو ڈرامہ سمجھتا رہا جو اکثر اوقات تحقیقات میں خفیہ ادارے اپناتے ہیں۔ لیکن دراصل یہ سب کچھ نذیر کی موت کے بعد ہوا تھا۔

تحقیقات میں تقریباً دو ماہ گزارنے کے بعد جب مجھے جیل بھجوانے کے لیے ایک مجسٹریٹ کے سامنے پیش کیا گیا تو اس وقت پروفیسرجمال نقوی کو بھی لایا گیا تھا۔ جیل جاتے وقت پولیس کی گاڑی میں میں نے پروفیسر کو بتایا کہ حالات خاصے خراب ہیں سخت سزائیں آئیں گی۔ یہ کسی کو لٹکانا چاہ رہے ہیں۔ پروفیسر کا کہنا تھا کہ نہیں، تب تک حالات میں تبدیلی آ جائے گی۔ میرا یہ شبہ درست ثابت ہوا۔ انہوں نے کسی عدالت کے ذریعے تو سزا نہیں دی لیکن تشدد کے ذریعے ایک ساتھی کو مار دیا۔

نذیر نے مر کر بہت ساروں کو بچایا۔ اپنے نظریے اور پارٹی کی ساکھ کے ساتھ ساتھ ساتھیوں کو بھی، جو گرفتار تھے اور جو باہر تھے۔

وہ ایک خوش مزاج، سریلی آواز والے نڈر انسان تھے۔ ایک ایسی شخصیت جو اصولوں پر سودے بازی کے لیے سوچ بھی نہیں سکتی۔

جنرل ضیاء کی موت کے بعد بینطیر بھٹو حکومت نے ایک ادھوری کوشش کی کہ نذیر عباسی کے قتل کا مقدمہ دوبارہ کھولا جائے لیکن تب تک دنیا ہی بدل چکی تھی۔ کمیونسٹ پارٹی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو چکی تھی اور اس معاملے کی مطلوبہ پیروی نہ ہونے کی وجہ سے ایک کمیونسٹ کا قتل جس کے خاصے شواہد بھی موجود تھے، ملزمان کے خلاف نہیں چلایا جا سکا۔

No comments: