Friday, December 28, 2007

نجکاری کا بدمست ہاتھی

پاکستان میں جس طرح ستّر کا عشرہ بینکاری، جہاز رانی، صنعت، تعلیم اور صحت کے اداروں سے لے کے چاول چھڑنے والے چھوٹے چھوٹے کارخانوں سمیت ہر قابلِ ذکر شئے کو قومی ملکیت میں لینے کے سبب یاد رکھا جائے گا اسی طرح بیسویں صدی کا آخری اور اکیسویں صدی کا پہلا عشرہ نجکاری کے لیئے یاد رہے گا۔

اس دوران قومی اثاثوں سمیت ہر شئے کو پرائیوٹائز کرنے کا عمل شروع ہوا اور منافع بخش اداروں کو بھی یا تو اونے پونے فروخت کر دیا گیا یا کیا جا رہا ہے۔

جتنے اندھا دھند طریقے سے نیشنلائزیشن کی گئی تھی اسی طریقے سے پرائیوٹائزیشن جاری ہے۔نہ تو ستّر کے عشرے میں قومی ملکیت میں لیئے گئے اداروں کی کارکردگی پر نظر رکھنے کے لیئے کوئی موثر طریقِ کار وضع کیا گیا اور نہ ہی اب نجکاری میں دئیے گئے اداروں پر نگاہ رکھنے کے لیئے کوئی ریگولیٹری ڈھانچہ نظر آتا ہے۔ جس طرح قومی ملکیت کے سفید ہاتھی نے سرمایہ کاری کے امکانات کو روند ڈالا تھا اسی طرح نجکاری کا بدمست ہاتھی عام آدمی سمیت ہر شئے کچل رہا ہے۔

تیل کمپنیاں آزاد ہیں کہ جب چاہیں جیسے چاہیں پٹرول کی قیمت مقرر کریں۔دواساز کمپنیوں کو کھلی چھوٹ ہے کہ دوا کے نام پر جیسے چاہیں جو چاہیں فروخت کریں۔ہسپتال مریض کو جو سہولت دیں یا نہ دیں اپنی مرضی سے پیسے لیں۔

تعلیمی ادارے فیس کے نام پر جو رقم چاہیں بٹوریں اور یہ بھی خود فیصلہ کریں کہ کس معیار کی تعلیم دیں گے۔ کاریں بنانے والی کمپنیاں آزاد ہیں کہ خریدار سے یک مشت ساری رقم لے کر بینک میں رکھ لیں اور یہ فیصلہ خود کریں کہ کار کی ڈلیوری کتنے ماہ بعد کرنی ہے۔ چینی اور سیمنٹ کے کارخانے اپنی جتنی پیداوار مارکیٹ میں جس قیمت پر بھی بیچیں کوئی پوچھنے والا نہیں۔

کہنے کو روزمرہ اشیائے ضرورت کی سستی فراہمی کے لیئے ایک سرکاری پرائس کنٹرول لسٹ بھی موجود ہے اور قیمتوں اور اشیاء کے معیار کو جانچنے والا ایک ادارہ بھی قائم ہے۔لیکن آپ کسی گوشت، سبزی، پھل یا پرچون کی دکان پر جا کر ذرا اس لسٹ کے مطابق خریداری پر اصرار کرکے دیکھیں یا ٹیکسی اور رکشے سے میٹر کے مطابق چلنے کی فرمائش کریں یا کسی بس اور ویگن میں سامنے لگی لسٹ کے مطابق کرایہ دینے پر اصرار تو کریں۔آپ کو جواب میں ایک زوردار قہقہہ سنائی دے گا۔

صحت، تعلیم، رہائش ، روزگار اور اشیائے ضرورت کی نجکاری کے بعد اب انصاف اور قانون کی نجکاری کا عمل بھی تقریباً مکمل ہوچکا ہے۔ سراغرساں ایجنسیاں ، رینجرز اور پولیس پوری طرح آزاد ہیں کہ وہ کسی بھی شہری کو کہیں سے بھی جب چاہیں جتنی مدت کے لیئے اٹھا کر غائب کردیں۔ایف آئی آر درج کریں یا نہ کریں۔عدالت کے سامنے پیش کریں یا جج کے سامنے ملزم کے وجود سے صاف مکر جائیں۔

عدالتی نظام بھی فری مارکیٹ اصول کے تحت کام کر رہا ہے۔انگریزی قانون کی عدالت، شرعی عدالت، خصوصی سماعت کی فوجی عدالت، انسدادِ دہشت گردی کی عدالت، جرگہ عدالت، پنچائتی عدالت۔ بولیئے کیا چاہیئے؟

تحفظ کا نظام بھی پرائیوٹائزڈ ہے۔ ذاتی باڈی گارڈز رکھیں گے یا پولیس گارڈز چاہیں گے۔ قبضہ گروپ کا تحفظ لیں گے یا پھر کسی سیاسی تنظیم یا مسلح ملیشیا کی پناہ میں آئیں گے۔اس سے زیادہ فری مارکیٹ چوائس آپ کو کہاں ملے گی۔

بس ایک شئے ایسی ہے جو شائد کبھی نجکاری کے عمل سے نہ گزرے اور وہ ہے اقتدار۔

No comments: