سنہ دو ہزار دو میں کسی بچے نے پاکستان کے کسی دور افتادہ دشوارگزارگاؤں میں جنم لیا۔ اس کا باپ اپنے کنبے کی دو وقت کی روٹی پوری کرنے میں زندگی گزار چکا لیکن اپنے بچے کو بڑا آدمی بنانے کا خواب دیکھنے سے پھر بھی باز نہیں آتا۔
اس آدمی کے سامنے دو راستے ہیں۔یا تو وہ پانچ کلومیٹر پرے واقع پرائمری سکول میں اپنے پانچ سالہ بچے کو داخل کرا دے جہاں نہ تو ٹوائلٹ کا انتظام ہے اور نہ ہی پینے کے پانی کا۔ کھانا بھی گھر سے باندھ کر بچے کے ہمراہ کرنا ہوگا۔ آنے جانے کا دس روپے روزانہ کا کرایہ بھی دینا ہوگا۔ بات صرف یہیں ختم نہیں ہوگی۔ پانچ جماعتیں پڑھ کر یہ بچہ چپراسی بننے کے بھی قابل نہ ہوگا۔ اسے لازماً مڈل سکول اور پھر ہائی سکول جانا پڑے گا۔ جن کا اس کے گھر سے پندرہ کلومیٹر کا فاصلہ ہے اور اس کا باپ اپنے اس بچے کو بڑا آدمی بنانے کے شوق میں جھکتا چلا جائے گا۔ ایک دن تنگ آ کر یہ بچہ خود ہی تعلیم ترک کردے گا اور باپ کا ہاتھ بٹانے لگ جائے گا۔ کہانی ختم
دوسرا راستہ یہ ہے کہ باپ اسے گاؤں سے ایک کلومٹیر دور مدرسے میں داخل کروا دے جہاں ابتدائی تعلیم کے ساتھ ساتھ دینی تعلیم کا بھی انتظام ہے۔ اور مولوی صاحب کا یہ بھی وعدہ ہے کہ اگر بچے کے والدین خرچہ نہیں اٹھا سکتے تو رہائش، طعام اور کتابیں مدرسے کی ذمہ داری ہوں گی اور اگر بچے میں قابلیت ہوئی تو اسے اعلٰی تعلیم کے لیے شہر کے سب سے بڑے دینی ادارے میں بھی اقامتی سہولتوں کے ساتھ داخلہ مل سکتا ہے۔
باپ کچھ دیر سوچتا ہے اور پھر اللہ کا نام لے کر بچے کو مدرسے میں داخل کروا دیتا ہے۔ اب یہ بچے کی قسمت کے وہ ایسے اساتذہ کے سپرد ہو جائے جو اسکے مستقبل کو ایک امانت سمجھتے ہوئے اسے علم کے راستے پر لے جائیں۔ یا وہ ایسے استادوں کے ہاتھ لگ جائے جو اس احسان مند بچے کے مستقبل کو گروی رکھ کر اس کے دل و دماغ کو مخالف عقیدے کے لوگوں سے انتقام کی آگ سے بھر دیں اور بارودی جیکٹ پہنا دیں۔
صدر پرویز مشرف نے تین روز قبل اپنے قومی خطاب میں فرمایا کہ مذہبی انتہا پسندی سے نمٹنے کے لیے نیم فوجی دستوں کی تعداد میں اضافہ کیا جائے گا،ان کا تربیتی معیار بہتر بنایا جائے گا اور ان کو ٹینکوں اور توپوں سے بھی لیس کیا جائے گا۔
یقیناً ان اقدامات سے بہت سے انتہا پسند مارے جائیں گے لیکن کیا ایک مرتبہ جھاڑ جھنکار کاٹ دینے سے آئندہ برس جھاڑ جھنکار اگنا بند ہوجاتے ہیں۔
اگر ان ٹینکوں اور توپوں کو فولاد کی بھٹی میں پگھلا کر سکولوں کی کرسیاں بنوا دی جائیں۔ مزید نیم فوجی دستوں کی وردی کے کپڑے سے بچوں کی یونیفارم بن جائے۔ ان کے میس کے ممکنہ خرچے سے سکول کے بچوں کو دوپہر کا کھانا اور صاف پانی مل جائے تو کیا اب سے دس برس بعد کسی جامعہ حفصہ یا فریدیہ کے خلاف آپریشن کی ضرورت رہے گی۔
بھاشا، کالاباغ، ایم ون موٹروے اور گوادر فری پورٹ جیسے میگا پروجیکٹس بنانے والی حکومت کو کون بتائے گا کہ پاکستانی بچوں کو خودکش بمباری کا ایندھن بننے سے روکنے کے لیے مفت، معیاری اور لازمی تعلیم کا منصوبہ مہنگا پروجیکٹ نہیں بلکہ میگا پروجیکٹ ہے۔
No comments:
Post a Comment