فوج اور فوجیوں کو زرعی زمین دینے کا سلسلہ بہت پرانا ہے اور انگریزوں کے زمانے سے چلا آ رہا ہے۔
اس زمانے میں انگریز سرکار ہر نئی آباد ہونے والی زمین کا دس فیصد حصہ فوجیوں کو دیا کرتی تھی۔ انیس سو بارہ کا’کولونائزیشن آف لینڈ ایکٹ‘ ایک ایسا قانون ہے جو انگریزوں نے بنایا تھا اور جس کے تحت انیس سو سینتالیس سے پہلے سے لے کر اب تک فوجیوں کو زمین دی جاتی رہی ہے۔
اس کے علاوہ انگریز کے زمانے میں گھوڑی پال مربعے دینے کا رواج تھا تا کہ ہندوستانی افواج کے لوگ انگریز سرکار کے تابع رہیں۔ یہ قانون اب تک نہیں بدلا گیا ہے اور اس کے تحت تقریباً بیس لاکھ ایکڑ زمین ملک کے مختلف حصوں میں فوجی افسران اور سپاہیوں کی دی جا چکی ہے۔ فوجی یا ملٹری فارمز اس کے علاوہ ہیں۔
یاد رہے کہ انیس سو ساٹھ کے عشرے میں فوجی افسران کو سندھ میں بھی زمین دی گئی تھی اور یہ سلسلہ انیس سو ستر اور اسّی کی دہائیوں میں بھی جاری رہا۔ لیکن فوج کو زمین کیوں ملتی ہے، یہ سوال اب کیوں اٹھایا جا رہا ہے؟ یہ ایک انتہائی اہم نکتہ ہے۔
اس بات کے منظر عام پر آنے کی تین وجوہات ہیں: پہلی یہ کہ انیس سو اسی کی دہائی سے زمین حاصل کرنے کے معاملے کو زیادہ منظم کر دیا گیا ہے۔
انیس سو اسّی میں جنرل ضیاءالحق کے دور حکومت میں فوج کے تینوں بازؤوں کے فوجی افسران اور سپاہیوں کو زمین یا گھر الاٹ کرنے کا انتظام کیا گیا۔ اس سکیم کے تحت ماہانہ قسطوں کے عوض فوجیوں کو ریٹائرمنٹ پر ایک بنا بنایا گھر ملتا تھا۔ اس وجہ سے فوج کو دی جانے والی زمینوں کا رقبہ مزید بڑھ گیا۔
دوسری وجہ یہ ہے کہ زمین کی قیمت میں اضافے کے ساتھ لوگ اس بات سے مزید آگاہ ہونے لگے کہ فوج کو بہت سی زمین تقسیم کی جا رہی ہے۔
اور تیسری بات یہ کہ ملکی سیاست میں فوج کی دراندازی سے یہ معاملہ زیادہ ابھر کر سامنے آیا ہے۔
میں نے اپنی زیر طبع کتاب، ملٹری انک (Military Inc) کے سلسلے میں، جس میں زمین کا مسئلہ بھی زیر غور ہے، بہت سے فوجی افسران سے اس حوالے سےگفتگو کی کہ آیا یہ درست ہے کہ فوجیوں کو زمین ملنی چاہیے؟
اکثر کی رائے یہ تھی کہ ایک فوجی جو اپنے ملک کے لیے جان دینے کے لیے تیار ہوتا ہے، اسے زمین دینے میں کوئی قباحت نہیں ہونی چاہیے۔ یہ زمین اس کی ذہنی آسودگی کا سبب بنتی ہے جس کے بعد وہ اپنا کام بہتر طور پر کر سکتا ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ جس فوجی افسر سے بھی اس موضوع پر بات کی اس نے میری توجہ ہزاروں سِول ملازمین کی جانب مبذول کرائی جو اپنی ملازمت سے بیش بہا فائدے اٹھاتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ اگر ایک ڈپٹی کمشنر یا ایس۔پی پولیس اس قدر فائدے حاصل کرتا ہے تو کیا حرج ہے کہ فوجی بھی فائدہ اٹھا لے؟
چند افسران ایسے بھی تھے جنہوں نے گفتگو کے دوران اس بات کا اظہار کیا کہ ایسا نہیں ہونا چاہیے۔ یعنی زمین کی یوں تقسیم نہیں ہونی چاہیے۔ لیکن اس کے بعد چند سِول اداروں کے ذکر کر کے، جو ’اپنی ضرورت سے زیادہ فائدہ اٹھاتے ہیں” یہ بات وہیں ختم ہو گئی۔
حقیقت یہ ہے کہ جس ملک کے پاس اتنے وسائل نہ ہوں جس سے وہ اپنے ملازمین کی آسودگی کا بندوبست کر سکے اور جہاں قانون پر عمل درآمد بہت کم ہو، وہاں لوگ اور ادارے اپنے اختیارات کے زور پر کچھ ایسے فائدے اٹھاتے ہیں جو باقی افراد کی دسترس سے باہر ہوتے ہیں۔ اور فوج خود کو اعلیٰ ترین ادارہ قرار دیتی ہے، جس کے ملازمین کی فلاح و بہبود بےحد ضروی ہے۔
اصولاً اس بات میں کوئی ایسا مسئلہ نظر نہیں آتا کہ فوج یا کسی اور ادارے کو زمین دی جائے۔ لیکن پھر اور بہت سے غیر فوجی لوگ بھی ہیں جنہیں زمین ملنی چاہیے۔ اس کے علاوہ اس زمین کے مستحق خصوصاً ان فوجیوں کے اہل خانہ ہیں جنہوں نے ملک کی حفاظت کے لیے جان دی۔
لیکن دیکھنے میں یہ آیا ہے کہ بہت سے اعلیٰ افسران نے نہ صرف اس سکیم سے فائدہ اٹھایا ہے بلکہ اپنے اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے زمین کو قابلِ کاشت بھی بنایا ہے جس کے باعث یہ معاملہ عوام کی نظروں میں مزید ابھر کر سامنے آیا ہے۔
پاکستان میں اکاؤنٹنگ کا ایسا کوئی طریقہ نہیں ہے جس سے سرکار کو یہ معلوم ہو سکے کہ اس کے پاس کتنی زمین موجود ہے؟ لہذا اب تک یہ ہوتا رہا ہے کہ فوج کو جس طرح کی اور جہاں بھی زمین پسند آ جائے، وہ اسے زورِ بازو سے حاصل کر لیتی ہے۔
اس طرح سے حاصل کی گئی زمین کو آباد کرنے کے لئے سرکاری خزانے سے خرچ کیے گئے پیسے کا بھی کوئی حساب یا ریکارڈ نہیں ہے۔ ایک فوجی جنرل کے مطابق ایسی روایت کا ختم ہونا ضروری ہے اور سرکار کو چاہیے کہ وہ شہری یا زرعی زمین صرف ایک مخصوص مدت کے لیے کسی فوجی کو دے اور مقررہ عرصے کے بعد یہ زمین واپس لی جائے۔
تاہم ایسا ہوتا دکھائی نہیں دیتا۔ فوج کے اعلیٰ افسران کو جنہیں اپنے اختیارات کا احساس بھی ہے اور ان کو ایک عام سپاہی سے کہیں زیادہ زمین ملتی ہے، ان سے زمین کی واپسی کی توقع بےسود ہے۔
فوج کے ایک عام سپاہی کو پندرہ سے بیس ایکڑ اور اعلیٰ افسر کو پچاس سے دو سو ایکڑ تک زمین دی جاتی ہے۔ اس کے لئے ایک پوائنٹس کا نظام استعمال کیا جاتا ہے جس کے حساب سے تمغے ملنے اور زیادہ لمبی نوکری سے پوائنٹ زیادہ ہوتے ہیں۔
انیس سو سینتالیس کے بعد زمین اس اصول کو سامنے رکھ کر تقسیم کی جاتی تھی کہ سرحد کے قریبی علاقوں میں کوئی بھی کاشت کاری کے لیے تیار نہیں ہوتا۔ لہذا مقامی لوگوں کو سہولیات فراہم کرنے کے بجائے کہ وہ ان زمینوں کو آباد کر سکیں، یہ طے کر لیا گیا کہ صرف فوجی ہی اپنے آبائی گھر چھوڑ کر ان زمینوں کو آباد کریں گے۔
تاہم یہ بات قطعی درست نہیں کہ فوج کے جانے سے ہی دور دراز علاقے آباد ہوئے۔ کئی مواقع پر ایسا بھی ہو چکا ہے کہ مقامی لوگوں کی آباد کردہ زمینیں فوج کو دے دی گئیں۔
فوج کو زمین کیوں دی جاتی ہے اور اس کا قومی سلامتی پر کیا اثر پڑتا ہے؟ اس بارے میں پیش کئے جانے والے تمام مفروضوں کی آج کے دور میں کوئی گنجائش نہیں۔
یہ بات اپنی جگہ بالکل سچ ہے کہ فوج اور سرکاری ملازمین کو فرائض کی صحیح انجام دہی کے لیے سہولیات کی ضرورت ہے لیکن زمینوں کے معاملے میں فوج کی سیاسی طاقت اور اختیار کا اہم کردار ہے۔ اسی طاقت کا استعمال کرتے ہوئے فوجیوں کو وسائل یا زرعی زمین مہیا کی جاتی ہے۔
اور تاحال ایسی کوئی صورت نظر نہیں آتی کہ اس مسئلے پر حقیقی بنیادوں پر غور کر کے اس کا سدِباب کیا جائے۔
No comments:
Post a Comment