مجھے اس وقت محمد خان جونیجو اور سونیا گاندھی ایک ساتھ بہت یاد آ رہے ہیں۔ بعد میں بتاؤں گا کہ ایک ساتھ کیوں یاد آ رہے ہیں۔
یاد تو مجھے ملک توڑنے کے الزام میں کورٹ مارشل سے بچ کر طبعی موت پانے میں کامیاب ہونے والے یحییٰ خان بھی آرہے ہیں جنہیں ہمارے جرات مند ججوں نے بعد از مرگ غاصبِ اقتدار قرار دیا۔
اور جنرل ضیا الحق بھی جو افغان جنگ میں آنے والے کروڑوں ڈالر، پوڈر کے کاروبار سے کھڑی ہونے والی نئی کروڑ پتی کلاس اور قومی مالیاتی اداروں کے اربوں روپے کے قرضے پی جانے والی سیاسی کلاس کا حساب کتاب دئیے بغیر ہوا میں بکھر گئے۔
اور یاد آرہے ہیں جنرل اسلم بیگ بھی جو سیاسی جماعتوں کو سیکرٹ فنڈز سے کروڑوں روپے کی منتقلی کا علم رکھتے ہوئے بھی باعزت ریٹائر ہو کر اسوقت ٹی وی اسکرین پر سرکردہ ملکی اور بین الاقوامی تبصرہ نگار ہیں۔
اور یاد آ رہی ہیں بے نظیر بھٹو جن کے دور میں ملک کی توانائی کا مستقبل آئی پی پیز کے ہاتھوں گروی ہوگیا۔اورجانے اس اسکینڈل کا کیا ہوا کہ پانچ ہیلی کاپٹر خریدے جانے کے باوجود کبھی پاکستان نہ پہنچ سکے۔اور جانے سرے محل کا سرمایہ کار اور مالک پہلے کیوں اس پراپرٹی سے لاتعلق رہا اور پھر اس کا دعویدار کیوں بن گیا۔
یہی بے نظیر ان میاں صاحب کے ساتھ مل کر چارٹر آف ڈیموکریسی بنا رہی ہیں جنہوں نے مئی انیس سو اٹھانوے کی ایک ہی رات شب خون مار کر لاکھوں لوگوں کے فارن کرنسی اکاؤنٹس سے گیارہ ارب ڈالر چھومنتر کردئیے۔اور جب بھی ضرورت پڑی وزارتِ خزانہ سے دو دو تین دن دن کے لیئے ایس آر اوز نکلوائے اور دوستوں نے ڈیوٹی کی کمی کی مد میں کروڑوں روپے کما لیئے تو ان ایس آر اوز کو واپس لے لیا گیا۔
مجھے یاد آ رہے ہیں مشرف حکومت کے احتساب بیورو کے پہلے سربراہ جنرل امجد ۔جنہوں نے گجرات کے چوہدری برادران کے خلاف قائم کرپشن کیسز واپس لینے کے دباؤ پر استعفی دینا زیادہ بہتر سمجھا۔اور انہی چوہدری برادران کے ہوتے ہوئے کروڑوں روپے کے کو آپریٹو سکینڈل میں نہ جانے کتنے پنشنرز اور بیواؤں کی کروڑوں روپے کی جمع پونجی ڈوب گئی۔
مجھے نہیں بھول پارہے لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ جاوید اشرف قاضی جو اپنی وزارتِ ریلوے کے زمانے میں کروڑوں روپے کے ناقص چینی لوکوموٹو انجنوں کی خریداری اور ریلوے پلیٹ فارم سے چوڑی سینکڑوں چینی مسافر بوگیوں کی امپورٹ کے بعد ایک خطیر رقم سے پلیٹ فارموں کو تڑوا کر بنوانے کے دلچسپ قصوں کے بعد اب بطور وزیرِ تعلیم نئی پود کے مستقبل کے نگراں ہیں۔
اور میرے سامنے گھوم رہے ہیں وہ موجودہ وزیر اور ارکانِ اسمبلی جن کی شوگر ملوں نے پچیس روپے کیلو کی چینی بنا کر پینتالیس روپے کیلو کی فروخت کی اور اب بھی کررہے ہیں۔اور اس شوگر مافیا کے آگے احتساب بیورو نے صرف تین روز میں ہتھیار ڈال دئیے۔
اور یاد آرہے ہیں حکمراں مسلم لیگ کے رہبرِ اعلی، وفاق کی علامت اور حاضر سروس چیف آف آرمی سٹاف معتدل ، روشن خیال، کھری بات کرنے والےشفاف اور اصول پسند جنرل پرویز مشرف بھی ۔
محمد خان جونیجو پاکستان کی تاریخ کے پہلے اور اب تک کے آخری وزیرِ اعظم ہیں جنہوں نے اپنی کابینہ کے تین وزرا کو کرپشن کے الزامات لگتے ہی کھڑے کھڑے نکال دیا تھا۔ اور سونیا گاندھی نے خود پر بے قاعدگی کا الزام لگتے ہی پارلیمانی نشست سے استعفی دے دیا اور ضمنی انتخابات میں چار لاکھ ووٹوں سے دوبارہ منتخب ہوکر الزام لگانے والوں کے چہرے پر اپنی پانچوں انگلیوں کے نشان چھوڑ دئیے۔
اس لیئے یاد آ رہے ہیں یہ دونوں ایک ساتھ۔
No comments:
Post a Comment