Friday, December 28, 2007

برقعے کے پیچھے کیا

جب تین ماہ قبل لاہور کے اجوکا تھیٹر نے برقعہ ویگنزا نامی پرفارمنس پیش کی تو جنرل پرویز مشرف کی روشن خیال انتظامیہ نے اس پر یہ کہہ کر پابندی لگا دی کہ اس سے لوگوں کے مذہبی جذبات مجروح ہو رہے ہیں۔ حالانکہ اس ڈرامے میں محض ان امکانات کی بات کی گئی تھی جو برقعے کی آڑ میں ممکن ہیں۔

اسلام آباد کی لال مسجد کے مہتمم مولانا عبدالعزیز نے تو خیر اب فرار کے لیے برقعہ استعمال کیا لیکن تاریخ برقعے کے طرح طرح کے استعمال کے واقعات سے بھری پڑی ہے۔

یہ تو خیر عام بات ہے کہ سرپھرے نوجوان کبھی کبھار گرلز کالجز کے سامنے برقعہ اوڑھ کے لڑکیوں کو خوفزدہ یا تنگ کرتے ہیں۔ اس طرح کی خبریں بھی آتی رہتی ہیں کہ بینکوں کے باہر بل جمع کرانے یا یوٹیلٹی سٹورز کے باہر لمبی لمبی قطاروں میں کھڑے کھڑے تنگ آنے والے کسی مرد نے زنانہ قطار میں برقعہ پہن کر موقع سے فائدہ اٹھانا چاہا اور راز فاش ہونے پر عورتوں سے پٹ گیا۔

لیکن ایسا کونسا طبقہ ہے جس نے برقعے کا فائدہ نہ اٹھایا ہو۔

اشتہاری ملزم پولیس مقابلے کے دوران گھیرا توڑنے کے لیے برقعہ میں چھپ کر فرار ہونے کی کوشش کرتے ہیں۔ بوسنیا کے دارالحکومت سرائیوو میں گزشتہ سال دو برقعہ پوش ڈاکوؤں نے بینک ڈکیتی میں چالیس ملین ڈالر لوٹ لیے۔

دو برس قبل صوبہ سرحد کے شہر مردان میں القاعدہ کا اہم رکن ابوالفراج ال لبی شٹل کاک برقعے میں موٹر سائیکل پر فرار ہوتے ہوئے پکڑا گیا۔ اس کو پکڑنے والے آئی ایس آئی کے مسلح اہلکار بھی برقعے پہن کر ایک قریبی قبرستان میں
ال لبی کا انتظار کر رہے تھے۔

بی بی سی کے سینئر رپورٹر جان سمپسن اور ان کے کیمرہ مین کو نائن الیون کے بعد طالبان کے افغانستان میں برقعہ پہنا کر ہی پشاور سے ننگر ہار پہنچایا گیا تھا۔

اور طالبان حکومت کے خاتمے کے بعد قندھار میں طالبان کے معروف کمانڈر ملا محمود کو بھی نیٹو کے دستوں نے برقعے میں ہی پکڑا تھا۔

مشہورِ عالم گلوکار مائیکل جیکسن جب چند برس قبل بحرین گئے تو انہیں لوگوں کے ہجوم سے بچنے اور شاپنگ کرنے کے لیے عربی برقعے میں باہر نکلنا پڑا جبکہ بالی وڈ کے معروف موسیقار ہمیش ریشمیا گزشتہ ہفتے اجمیر میں خواجہ غریب نواز کی درگاہ پر پہنچے تو انہیں ایک جھلک دیکھنے والوں سے ہاتھ پاؤں بچانے کے لیے برقعہ اوڑھ کر غریب نواز کی چوکھٹ پار کرنا پڑی۔

پاکستانی سیاست میں بھی برقعے نے کئی رنگ بکھیرے ہیں۔

جب انیس سو تریپن میں احمدی فرقے کے خلاف پنجاب میں ختمِ نبوت کی تحریک چلی اور لاہور میں مارشل لا لگانا پڑا تو تحریک کے ایک مرکزی رہنما مولانا عبدالستار نیازی کو گرفتاری سے بچنے کے لیے برقعے کا سہارا لے کر روپوش ہونا پڑا۔

اسی دوران جب گورنر جنرل غلام محمد نے وزیراعظم ناظم الدین کی حکومت اور آئین ساز اسمبلی کو برخواست کردیا تو اسمبلی کے سپیکر مولوی تمیز الدین خان کو سندھ چیف کورٹ کی عمارت تک پہنچانے اور آئینی پیٹیشن داخل ہونے تک پولیس سے بچانے میں برقعے نے اہم ترین کردار ادا کیا۔

مولانا کوثر نیازی جو پیپلز پارٹی میں آنے سے قبل جماعتِ اسلامی میں فعال تھے۔ ایوبی دور میں انہیں ایک مرتبہ لاہور کی مسجد وزیرخان میں تقریر کے دوران جب پولیس گرفتار کرنے پہنچی تو ان کے حامیوں نے مولانا کوثر نیازی کو ایک خالی دیگ میں ڈال کر باہر پہنچایا جہاں سے وہ برقعہ پہن کر رفوچکر ہونے میں کامیاب ہوگئے۔

جب تک برقعہ موجود ہے مرد اس میں عورتوں کو بھی چھپاتے رہیں گے اور خود کو بھی۔

No comments: