تو آخر پھر آرمی چیف پرویز مشرف اپنے عہدے سے دستبردار ہو ہی گئے۔
سروس کے آخری دن وہ خاصے آزردہ تھے۔ اور آخر کیوں نہیں؟ آخر انہوں نے پاک فوج میں اتنے دن گزارے ہیں اور اس ادارے نے ان کے ساتھ خاصا اچھا سلوک کیا ہے۔
آپ اس کا اندازہ اس سے لگائیں کہ انہیں گھر جاتے وقت بھی خالی ہاتھ نہیں بھیجا گیا۔ پینشن تو خیر کوئی خاص مراعات میں سے نہیں۔ یہ تو ہر سول اور فوجی ملازم کو ملتی ہے۔ پاکستان حکومت ہر سال کوئی پینتیس بلین (ارب) روپے فوجی پینشن کی مد میں خرچ کرتی ہے اور اس کا بڑا حصہ بڑے افسران کے کھاتے میں جاتا ہے کیوں کہ وہ ہی سب سے زیادہ وقت فوج میں گزارتے ہیں جب کہ فوج کا ایک بڑا حصہ کپتان یا میجر تک پہنچتے پہنچتے ریٹائر ہو جاتا ہے۔ سب سے زیادہ سروس جرنیل کی ہوتی ہے خاص طور پر اس جرنیل کی جو حکومت پر حکمراں ہو جاتا ہے۔
مثلاً پرویز مشرف تقریباً تیس لاکھ روپے نقد لے کرگھر جائیں گے اور ان کی ماہانہ پینشن بھی کوئی پینتالیس یا پچاس ہزار کے لگ بھگ ہو گی۔ پینشن کی رقم کا زیادہ دار و مدار اس بات پر ہوتا ہے کہ افسر نے کتنے سال سروس میں گزارے۔
اس کے علاوہ ریٹائر ہونے والے ہر چیف کو ایک بڑی گاڑی درآمد کرنے کی اجازت ہوتی ہے۔ تمام پرانے سروس چیفس کے پاس ایک مرسیڈیز پائی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ تین یا چار ملازم جو تا حیات رہتے ہیں اور جن کی تنخواہ اور کھانا سرکار دیتی ہے۔ فوجی کلبوں کی ممبر شپ، مفت علاج اور ایک گھر اس شہر میں جہاں وہ رہنا چاہیں ملتا ہے۔
لیکن قصہ یہیں ختم نہیں ہو جاتا۔ ہر فوجی افسر کو ملازمت کے کچھ عرصے کے بعد کوئی نہ کوئی شہری یا زرعی جائیداد ملتی ہے۔ پہلی جائیداد پندرہ سال کی سروس کے بعد، دوسری پچیس سال، تیسری اٹھائیس سال اور آخری تینتیس سال کی سروس کے بعد ملتی ہے۔
اس کے علاوہ مختلف ہاؤسنگ سکیموں کے بھی اپنے مزے ہیں۔ کوئی حیرت کی بات نہیں کہ صدر صاحب اس وقت کروڑوں کی جائیداد کے مالک ہیں۔ ان کی جائیداد کا تخمینہ کوئی چالیس سے پینتالیس کروڑ کے لگ بھگ ہے۔
ارے کوئی ہمیں بھی فوج میں ملازمت دلوا دے۔
No comments:
Post a Comment