انیس سو پچھتر میں جب امریکہ ویتنام کی شکست کے زخم چاٹ رہا تھا امریکی سینیٹ کی خارجہ تعلقات کمیٹی نے دنیا بھر میں سی آئی اے کی ان خفیہ سرگرمیوں کو لگام دینے کا فیصلہ کیا جن کے نتیجے میں امریکی امیج تباہ ہورہا تھا۔
سی آئی اے کے اہلکاروں کو شہادت کے کٹہرے میں کھڑا کیا گیا اور پابند کیا گیا کہ آئندہ وہ کسی ایسے منصوبے پر عمل نہیں کریں گے جو کانگریس کے علم میں نہ ہو اور جس کی حکومت نے قانونی اجازت نہ دی ہو۔ چنانچہ اگلے کم ازکم چوبیس برس کے لیے سی آئی اے کے پر کاٹ دئیے گئےاور کسی نے بھی اس وقت یہ نہیں کہا کہ سی ائی اے ایک حساس قومی ادارہ ہے اور اس کے معاملات پر کھلے عام بحث سے ملکی سالمیت خطرے میں پڑ سکتی ہے۔
پاکستان میں سینکڑوں لوگوں کی پراسرار گمشدگی میں ایجنسیوں کے مبینہ کردار پر پارلیمان میں کوئی سوال اٹھنا تو درکنار جب ہائی کورٹ وزارتِ دفاع کے وکیل سے کہتی ہے کہ وہ اپنی ماتحت ایجنسی سے فلاں لاپتہ آدمی کے بارے میں معلوم کرکے بتائیں تو وکیل کا جواب یہ ہوتا ہے کہ وزارتِ دفاع کا اس ایجنسی پر انتظامی اختیار نہیں ہے۔
اسرائیل نے انیس سو بیاسی اور پھر جولائی دوہزار چھ میں لبنان میں اسرائیلی فوج کے طرزِ عمل اور ناکامیوں کی چھان بین کے لیے عدالتی کمیشن مقرر کئیے۔
بھارت نے انیس سو ننانوے میں کارگل کے محاز پر فوجی غفلت کی چھان بین کے لیے نہ صرف تحقیقاتی کمیشن بٹھایا بلکہ اسکی رپورٹ بھی ویب سائٹ پر شائع کردی لیکن پاکستان میں اگر صدر مشرف سے پوچھا جائے کہ کارگل پر چہ مگوئیوں کے خاتمے کے لیے آخر کوئی تحقیقاتی کمیشن کیوں تشکیل نہیں دیا جاتا تو ان کا جواب ہوتا ہے کہ گڑھے مردے اکھاڑنے سے کیا فائدہ۔
اسی طرح جوہری ٹیکنالوجی کی غیر قانونی اسمگلنگ کے بارے میں پاکستان پر پچھلے دو برس سے مسلسل سوالیہ نشان ہے اور ہر کچھ عرصے بعد پاکستانی وزارتِ خارجہ کو صفائی پیش کرنی پڑتی ہے۔اگر ڈاکٹر قدیر کے اسمگلنگ ریکٹ کے بارے میں حکومتِ پاکستان اپنے طور پر کوئی غیر جانبدار تحقیقاتی کمیشن قائم کردیتی تو بہت سے منہ بند ہوجاتے اور یہ بھی پتہ چل جاتا کہ چوبیس ٹن کے جوہری آلات اکیلے ڈاکٹر قدیر نے اسمگل کئیے یا ان کے کچھ اور معاون بھی یہ وزن ڈھونے میں شریک تھے۔
پاکستان میں قومی سانحات کی چھان بین کی صرف ایک مثال حمود الرحمٰن کمیشن کی شکل میں دستیاب ہے۔اس کی رپورٹ پر عمل ہونا تو کجا اسے اتنے طویل عرصے بعد شائع کیا گیا کہ بیشتر کلیدی کردار دنیا سے جاچکے تھے۔
عجیب بات ہے کہ جب شعیب اختر اور محمد آصف نے پرفارمنس میں اضافے کے لیے ادویات کا غیر قانونی استعمال کیا تو پاکستان نے ازخود تحقیقات کرکے یہ موقف اختیار کیا کہ اس سے کرکٹ کی دنیا میں پاکستان کا وقار بلند ہوگا اور ساکھ میں اضافہ ہوگا۔
لیکن جن کرداروں نے پوری قوم کے ساتھ ڈوپنگ کی اور کررہے ہیں ان کے خلاف کسی بھی طرح کی تحقیقات کا مطالبہ حساس قومی معاملہ کہہ کر قالین کے نیچے دبا دیا جاتا ہے۔
No comments:
Post a Comment