درگئي میں پنجاب رجمنٹ کے رنگروٹوں کی لاشیں دیکھ کر (جنکی تصاویر میڈیا میں چھپی ہیں) میں نے سوچا کیسے کیسے کڑیل اور پپو جوان ملٹری اور ملا الائنس کا شکار بنکر رزق خاک ہوئے۔
’تصورات کی پرچھائیاں ابھرتی ہیں‘ والی بات ہوئی۔ وہی ساحر کی ’بستی کے سجیلے شوخ جواں بن بن کے سپاہی جانے لگے‘ والی بات۔
اس دن بی بی سی پر ہارون رشید کی رپورٹ میں ایک مقتول جوان روح الحیات اور کسان کے بیٹے کے چچا نے کیا خوب کہا کہ ’فوج میں غریب ہی بھرتی ہونے جاتےہیں‘۔ ان میں سے ایک لاش سندھ بھی پہنچی ہے۔
پاکستان میں جب جب فوجی جنرلوں نے شب خون مارا ہے انہوں نے پوری سوسائٹی کیساتھ خود عام فوجی سپاہی کو بھی خطروں سے دوچار کردیا ہے۔ ’سرحدوں کی نہ پاسبانی کی ہم سے داد لی جوانی کی‘۔
اپنے ہی عوام کو فوجی مار رہے ہیں اور فوجی مررہے ہیں۔ جتنی لاشیں گرتی ہیں جنرل خراج وصول کرتے ہیں۔
چودھریوں، وڈیروں، خانوں اور جرنیلوں نے گھوڑے پال سکیم سے لیکر جہادی پال سکیم تک خوب مال کمایا ہے۔ وہ گولف کھیلتے ہیں اور لمبی سازشیں کرتے ہیں۔ یہی کارگل میں ہوا، یہی بلوچستان اور ملک کے دوسرے حصوں میں ہورہا ہے۔
ایک عام فوجی سپاہی کی زندگي کیا ہے؟ اسکے خاندان کے حالات وہی ہیں جو ایک پاکستان کے عام غریب آدمی کے ہیں۔ سب ہی کے ٹو کی دھن میں مگن۔ پنجاب میں بہت سے ایسے لوک گیت ہیں جو سپاہی اور اس سے وابستہ لوگوں کے دکھ درد کے متعلق ہیں۔
’تمہیں بیرنگ چھٹیاں بھیجتی ہوں اور وہ واپس آجاتی ہیں، تمھارا تبادلہ نہ جانے کس چھاونی ہوگیا ہے‘، ایک پنجابی ماہیے کا اردو ترجمہ ہے۔
میرے دوست اور شاعر افتخار نسیم نے ایک دفعہ لکھا تھا کہ پہلی جنگ عظیم میں پنجاب میں بڑے بڑے جاگیرداروں اور زمینداروں نے اپنے مزارعوں اور کمیوں کے چودہ چودہ سالہ بچے انگریزوں کی فوج میں لڑنے کیلیے بھرتی کروا کے بھیجے تھے جو لوٹ کر واپس نہیں آئے اور انکا آج تک پتہ نہیں۔
سندھ میں جب ڈاکوؤں، پولیس اور وڈیروں نے غریب لوگوں کو تنگ کرنا شروع کیا تو کچھ علاقوں سے کچھ لوگوں نے بھی اپنے بیٹوں کو فوج میں بھرتی کروا کے بھیجا۔ اگرچہ سندھی سپاہیوں کا حصہ فوج میں آٹے میں نمک سے بھی کم ہے لیکن ہے ضرور۔ فوجی سے سندھی وڈیرہ بڑا ڈرتا ہے۔ ’سائيں جب آؤ تو ڈریس پہن کر آنا کہ اس سے کیا ہے کہ دشمن پر رعب پڑتا ہے‘، ایک وڈیرے نے علاقے میں ایک فوجی میجر کی دعوت کرتے ہوئے کہا تھا۔
ذوالفقار علی بھٹو نے بھی فاطمہ جناح والے صدارتی انتخابات میں لاڑکانہ کی سڑکوں پر ٹینک لانے کو کہا تھا کہ ا س سے ’دشمنوں پر دھاک بیٹھتی تھی‘۔
جام صادق علی نے سندھ میں ہر پی پی پی لیڈر کو تنگ کیا سوائے ان کے جن کے سسر یا بہنوئی یا سالے فوج میں کرنل تھے۔
اپنی پکی تنخواہ، ایمبسی کی ڈبی اور ریڈیو پر ’فوجی بھائيوں کے لیے پروگرام‘ اور ازدواجی حیثیت ’غیر شادی شدہ‘ پر گزران کرنیوالا یہ سپاہی یا ’بٹ مین‘ رائیل سیلوٹ پینے والے جرنیلوں کی سیاسی چالوں کا صرف ایک پیادہ ہے۔ پاکستانی فوج جرنیلوں کی پرائيوٹ آرمی اور جرنیل قبائلی سردار بن چکے ہیں، جرگائي جرنیل!
مجھے ایسے بھی رنگروٹ ملے تھے جوفوج سے بھاگ کر آئے تھے کیونکہ وہ پریڈ کے میدان پر ’استادوں‘ کی شہوانی نفسیات کے شکار ہو چکے تھے۔
فوج کے ہاتھوں قوم پرست رہنما نواب اکبر بگٹی کی ہلاکت کا واقعہ تو عالم آشکار بنکر جرنیل شاہی کے لیے طعنہ بن چکا ہے لیکن ان فوجیوں کا نام و نشان تک کوئي نہیں جانتا جو آئي ایس پی آر کی کہانی کے مطابق اس غار کے دہانے پر دہماکے سے اڑے۔
بائيں بازو کا طالب علم رہنما نذیر عباسی ضیاء الحق کے شروعاتی دنوں میں فوجی کسٹڈی میں کوئٹہ میں تھا اور وہ اپنی سریلی آوازمیں اپنے سیل میں اپنے پسندیدہ گانے گاتا۔ جب وہ ’تو ہندو بنے گا نہ مسلمان بنے گا،انسان کی اولاد ہے انسان بنے گا‘ یا پھر ’دیکھ تیرے سنسار کی حالت کیا ہوگئی بھگوان‘ جیسے گانے گاتا تو اسکے پہریدار بھی اس سے متاثر ہوئے بنا نہ رہ سکتے۔
اس کے پہریدار اسکے قریب آتے اور اس سے فرمائش کرتے، ’روضے دی جالی چم لین دے‘۔ وہ اس سے چھٹی نہ ملنے کا بھی رونا روتے۔ ایک دن نذیر جو کہ اسیری میں بھی اپنی ایک خاص شخصیت کی وجہ سے فوجی افسروں میں عزت کرواتے تھے نے ایک اردلی کو چھٹی دلوادی تھی۔ سپاہی کی چھٹی کے دوران ہی نذیر عباسی آزاد ہوگیا اور ایک دن کیا دیکھا کہ حیدرآباد میں مزدور یونین کے دفتر ڈھونڈتا وہ سپاہی اسکا شکریہ ادا کرنے آیا کہ اس کی وجہ سے اسکی چھٹی منظور ہوئی تھی۔ نذیر عباسی بعد میں ضیاء الحق کے دنوں میں ہی فوجی تحویل میں تشدد کے دوران ہلاک ہوا۔ نذیر عباسی کے قتل کا مقدمہ درج کروانے کے سلسلے میں جب اسکی بیٹی زرقا اپنی ماں حمیدہ گھانگھرو کیساتھ اسلام آباد آئی تھی تو وہاں موجود ایک صحافی دوست نے مجھے بتایا تھا کچھ اہلکاروں نے جب زرقا سے پوچھا تھا کہ بڑی ہوکر وہ کیا بنيں گی تو تب اس بچی نے جواب میں کہا تھا ’فوجی‘۔
No comments:
Post a Comment