Friday, December 28, 2007

استعفی کون دے گا

صدر جنرل پرویز نے نو مارچ کو ججوں کی رہائش گاہوں میں جاسوسی کے آلات لگانے والی ایجنسیوں کے اعلی حکام کی موجودگی میں چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری سے استعفی لینے کی پانچ گھنٹے کی ناکام کوشش کے بارے میں بارہا یہ اعتراف کیا ہے کہ کیس کو مِس ہینڈل کیا گیا اور جو ریفرنس انہوں نے عجلت میں تشکیل دی جانے والی سپریم جوڈیشل کونسل کے سامنے بھیجا اسکے ذمے دار وہ نہیں بلکہ وزیرِ اعظم شوکت عزیز ہیں۔ اور جب وزیرِ اعظم اس طرح کا کوئی ریفرنس بھیجتا ہے تو صدر آئینی طور پر پابند ہوتا ہے کہ وہ یہ ریفرنس نہ روکے بلکہ کاروائی کے لئے متعلقہ ادارے کے سپرد کردے۔

اسکے ساتھ ہی ساتھ گزشتہ چار ماہ کے دوران صدرِ مملکت سے لے کر وزیرِاعظم شوکت عزیز اور وزیرِ قانون وصی ظفر سے لے کر سرکاری وکلاء تک ہر ایک یہ گردان کررہا ہے کہ عدالت کا جو بھی فیصلہ آیا اسے خوشدلی سے تسلیم کرکے اسکا پورا احترام کیا جائے گا۔

لیکن کیا صرف یہ کہہ دینا کافی ہے کہ عدالت کا فیصلہ خوشدلی سے تسلیم کرلیا جائے گا یا دائر کردہ ریفرنس کی طرح اس خوش دلی کا کوئی ٹھوس ثبوت بھی مہیا کیا جائے گا۔

لیکن صدر مشرف جو پچھلے چار ماہ کے دوران اپنے استعفی کے سوال پر گول مول جواب دینے یا بات بدل دینے کے عادی رہے ہیں اب بھی بڑی آسانی سے یہ دلیل دے کر جان چھڑا سکتے ہیں کہ میرا اس ریفرنس سے کیا لینا دینا۔ میں تو صرف ایک پوسٹ آفس کا کام کررہا تھا۔اصل ذمہ داری تو شوکت عزیز اور انکی حکومت پر آتی ہے جنہوں نے یہ ریفرنس تیار کیا۔ میں نے تو صرف اس ریفرنس کو آگے بڑھا دیا۔ میں کیوں ذمہ داری قبول کروں یا استعفی دوں۔

تو کیا صدر مشرف وزیرِ اعظم شوکت عزیز کا استعفی طلب کر کے یا برطرف کر کے آج کے عدالتی فیصلے کو خوشدلی سے قبول کرنے کا ثبوت دیں گے۔ کیونکہ یہ شوکت عزیز کی جانب سے بجھوایا جانے والا ہی ریفرنس تو تھا جس کے نتیجے میں ملک کا طول وعرض گو شوکت گو کہ بجائے گو مشرف گو کے نعروں سے گونج اٹھا اور عدالت کے آج کے فیصلے کے نتیجے میں نہ صرف یہ ریفرنس غیر قانونی بلکہ ایک خونی ریفرنس بھی ثابت ہوا جس کے نتیجے میں بارہ مئی کو کراچی میں پچاس اور فیصلے سے تین روز قبل اسلام آباد میں چیف جسٹس کے استقبالیے کے باہر خود کش حملے کے نتیجے میں اٹھارہ افراد جاں بحق ہوئے۔گویا اس ریفرنس نے صرف آئینی نظائر کو ہی نہیں بلکہ اڑسٹھ انسانی جانوں کو بھی روند ڈالا۔

اگر صدر مشرف آج کے بعد سٹیل مل کیس ہارنے والے اور سٹاک ایکسچینج سکینڈل میں اپنے دامن پر پڑنے والے چھینٹوں کو مسکراتے ہوئے دھونے والے شوکت عزیز کو رخصت کرنے کے فیصلے کو اپنی ساکھ کی کمزوری پر محمول کرتے ہیں تو کیا ان لوگوں کے خلاف کوئی ایکشن لیا جائے گا جنہوں نے یہ ریفرنس شوکت عزیز کو تھما کر اور شوکت عزیز نے صدر مشرف کو تھما کر اور صدر مشرف نے عجلت میں بلائی جانے والی سپریم جوڈیشل کونسل کو تھما کر ایک دوسرے کی جگ ہنسائی کا خوب خوب سامان فراہم کیا۔

جو حکومت ایک چیف جسٹس کو اپنے بیٹے کی سفارش اور پٹرول کی جعلی رسیدوں جیسے الزامات کے تحت سبکدوش کرنا چاہتی تھی خود اس حکومت کی سبکدوشی کے لئے آخر کتنے اور سکینڈل درکار ہیں۔

No comments: