جمہوریت تو جنرل سہارتو کے دور میں بھی تھی جب انہوں نے انڈونیشیا کے عوام سے ایک مرتبہ نہیں بلکہ سات مرتبہ اعتماد کا بھرپور ووٹ حاصل کیا اور ان کی گولکر پارٹی منتخب اسمبلی میں اپوزیشن کو مستقل نیچا دکھاتی رہی۔
جمہوریت تو صدام حسین کے دور میں بھی تھی جب وہ ہر صدارتی ریفرینڈم میں ننانوے اعشاریہ ننانوے فیصد ووٹ حاصل کرکے چھ مرتبہ ملک کے صدر منتخب ہوئے اور ان کی بعث پارٹی کو ہراسمبلی انتخاب میں نوے فیصد سے زائد نشستیں حاصل ہوتی تھیں۔
جمہوریت تو محمد رضا شاہ پہلوی کے دور میں بھی تھی جب مجلس کے انتخابات میں رستاخیز پارٹی جانے کیوں ہر بار بھرپور طریقے سے جیت جاتی تھی اور شاہ کے بعد بھی ایران میں ہر پانچ برس بعد صدارتی اور پارلیمانی انتخابات آئین کے مطابق طے شدہ مدت میں ہوتے ہیں اور ان میں کبھی تاخیر نہیں ہوئی۔
جمہوریت تو مصر میں بھی مسلسل ہے جہاں جمال ناصر اور انور سادات کی قائم کردہ روایت کے مطابق حسنی مبارک بھی ہر چھ برس بعد ووٹ کے ذریعے صدارت کی عوامی توثیق باقاعدگی سے کرواتے ہیں۔ ڈیموکریٹک سوشلسٹ پارٹی ہمیشہ دو تہائی اکثریت سے عام انتخابات جیتتی ہے اور اپوزیشن کے وجود کو بھی اسمبلی میں برداشت کیا جاتا ہے۔
اور مصر سے کہیں زیادہ جمہوریت تواس کے ہمسائے لیبیا میں ہے جہاں کرنل قذافی کے پاس کوئی عہدہ نہیں ہے۔ وزیرِ اعظم کاروبارِ حکومت چلاتا ہے اور آئین کے مطابق ہر ادارے کے مالک عوام ہیں۔
وسطی ایشیائی ریاستوں ازبکستان، تاجکستان، ترکمانستان، قزاقستان اور کرغیزیہ کی جمہوریت کو کون مائی کا لال چیلنج کرسکتا ہے جہاں عوام ہر بار پولنگ اسٹیشنوں پر جا کر اپنے محبوب رہنما اور انکی عوام دوست پالیسیوں کی سو فیصد تائید کرتے ہیں۔
جمہوریت تو بیلاروس میں بھی ہے جہاں لوکاشینکو کب عوام کی آنکھوں کا تارا نہیں رہے اور کب انہوں نے انتخابی نتائج کا احترام نہیں کیا۔
اور کون کہتا ہے کہ پاکستان میں جمہوریت کا تسلسل برقرار نہیں رہ پاتا۔ جنرل ایوب سے لے کر جنرل مشرف تک کس فوجی حکمران کے دور میں منتخب اسمبلیاں نہیں رہیں اور ان میں اپوزیشن کو بیٹھنے سے روکا گیا۔اور یحیی خان کو چھوڑ کر کس فوجی جنرل نے اپنی حکمرانی حلال کرنے کے لئے عوام سے براہ راست ووٹ نہیں لیا۔
بس ایک ذرا سی الجھن ہے جو سلجھتے نہیں سلجھتی۔
اگر یہ سب حکومتیں جمہوری تھیں یا ہیں تو پھر مغربی یورپ، شمالی امریکہ، برازیل، وینزویلا، جاپان، سری لنکا، بنگلہ دیش اور ہندوستان میں کونسا نظام ہے۔
No comments:
Post a Comment